مسئلہ فلسطین
پس منظر
زمانہ قدیم سے یہودی فلسطین میں آباد تھے ۔قیصر روم نے یہودیوں کو ان کی سازشوں کی وجہ سے فلسطین سے نکال دیا۔ یہ عرب میں آباد ہوگئے۔ ظہور اسلام کے بعد انہوں نے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سرزمین عرب۔ سے نکال دیا ۔اس کے بعد یہودی جہاں بھی گئے دھتکارے گئے۔ اقلیت میں ہونے کے باوجود یہودی تجارت ،صنعت اور تعلیمی میں ہمیشہ پیش پیش رہے ۔جنگ عظیم اول میں ڈاکٹر ویزمین نامی یہودی پروفیسر نے بھک سے اڑانے والا کیمیائی مادہ ایجاد کرکے برطانوی حکومت کی ہمدردیاں حاصل کی۔ اس جنگ عظیم کے دوران فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔ پرطانوی حکومت نے یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں نے امریکا کی مالی امداد کی۔ اس طرح برطانیہ اور امریکہ کی ملی بھگت سے 15 مئی 1948 کو اسرائیل کی ریاست معرض وجود میں آئی
1948 عرب اسرائیل جنگ
عرب ممالک نے اس فیصلے کو مسترد کرکے چاہ طرف سے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ شام ،لبنان اردان ،عراق، مصر اور سعودی عرب نے بڑی تیزی سے یلغار کی بیت العلم حضرت اسلام کی جائے پیدائش پر قابض ہو گئے ۔یہاں سے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب صرف 12 میل تھا برطانیہ اور امریکہ اسرائیل کو برابر اسلحہ مہیا کر رہے تھے۔ 7 جون 1949 کو جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا جس کی رو سے جنوبی فلسطین کے چار میں سے تین حصوں پر یہودیوں کا قبضہ تسلیم کرلیا گیا
1956 جنگ
مصر کے حاکم جمال عبدالناصر نے 26 جولائی 1956 کو نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لے لیا جس پر ابھی تک برطانیہ کا قبضہ تھا۔ اس کے جواب میں انہیں 29 اکتوبر 1956 کو اسرائیل، فرانس اور برطانیہ نے ملکر مصر پر حملہ کردیا۔ مصر نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ روس کی دھمکی سے جنگ بند ہوگی اور سلامتی کونسل کی مذمت کے بعد برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کو مصر کے علاقے سے فوجی نکالنا پڑیں
1967 جنگ
اسرائیل نے فلسطین میں آباد عربوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا وہ شام اور اردن میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ۔مشرق وسطی میں کشیدگی پھیل گئی اچانک 5 جون 1967 کو اسرائیلی فضائیہ نے مصر کے ہوائی اڈوں پر کھڑے جہازوں کو برباد کردیا اور اسرائیل کی بڑی فوج صحرائے سینا عبور کرتی ہوئی مصر کے مغربی کنارے تک پہنچ گئی اور دوسری طرف شام میں گولان کے پہاڑوں اور دریائے اردن کے مغربی کناروں یروشلم، بیت المقدس اور الخلیل پر قابض ہوگئی۔ 22 نومبر 1967 کو سلامتی کونسل نے جنگ بندی کرا دی اور ایک قرار داد کے ذریعے اسرائیل کو عربوں کے علاقے خالی کرنے کا حکم دیا لیکن اسرائیل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی جارحانہ کاروائیاں جاری رکھیں
1973 جنگ
1967 کی جنگ میں عربوں پر اسرائیل کی برتری قائم ہوگی اور دنیا میں عسکری اور سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پھیل گیا کہ اسرائیل میں ناقابل تسخیر ہے۔ 1973جنگ اسرائیل کا یہ گھمنڈ خاک میں مل گیا۔ عرب مصر کا صحرائے سینا اور نہر سویر کا مشرقی کنارہ خالی کرانے میں کامیاب ہوگئے لیکن گولان کی پہاڑیوں اور بیت المقدس ابھی تک اسرائیل ہی قبضے میں ہے پاکستان ہمیشہ اسرائیل کی جارحانہ پالیسی کی مذمت اور فلسطینی مہاجرین کے حقوق کی بحالی کے لیے عالمی برادری پر زور دیتا ہے ۔ پاکستان نے اسرائیل کی ریاست کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے کسی قسم کے روابط نہیں ہے عرب ممالک پاکستان کے تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
مسئلہ فلسطین کے متعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی
مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں پاکستان نے ہمیشہ عربوں کی حمایت کی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ نے بڑی باقاعدگی سے فلسطین کے مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کے لیے قرارداد منظور کی۔ پاکستان بننے کے بعد مسئلہ فلسطین کے متعلق پاکستان میں حسب ذیل خارجہ پالیسی اختیار کی
اسرائیلی ریاست نامنظور
پاکستانی ظلم اور بربریت کی بنیاد پر قائم ہونے والی اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کیا ہے۔اسرائیل کے ساتھ پاکستان کی کسی قسم کے تعلقات قائم نہیں ہیں پاکستان واحد غیر عرب ممالک ہے جسے اسرائیل اپنا دشمن سمجھتا ہے جس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان عربوں کی ہر معاز پر بھرپور مدد کر رہا ہے
جنگ میں عربوں کی مدد
1956، 1967، اور 1973 میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستانی کسی ہچکچاہٹ کے بغیر عربوں کی مادی، سیاسی اور اخلاقی مدد کی۔ پاکستان کے عوام عربوں سے گہری ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کی مدد کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں
اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مخالفت
قیام پاکستان کے ایک ماہ بعد جنرل اسمبلی کے جس اجلاس میں پاکستان کو اقوام متحدہ کا رکن بنایا گیا اس میں فلسطین کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ پاکستان وفد نے واضح طور پر فلسطین کو تقسیم کرنے کی امریکی قرارداد پر تنقید کی۔ اس کے بعد جب بھی فلسطین کا مسئلہ اقوم متحدہ میں پیش ہوا پاکستان نے عربوں کی مدد اور اسرائیل کی مخالفت کی
فلسطینی مسلمانوں کی الگ ریاست کی حمایت
پاکستان نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اور علاقائی تنظیموں میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور عرب علاقوں پر اس کے غاصبانہ قبضے کو ناجائز قرار دیا اور پاکستان کا موقف یہ ہے کے مسئلے کا حل فلسطین مسلمانوں کو الگ قوم تسلیم کرنے اور ان کی الگ ریاست کے قیام سے ہی سے ممکن ہے
تنظیم آزادی فلسطین پی ایل او کو نمائندہ جماعت تسلیم کرنا
پاکستان فلسطینیوں کی سیاسی جماعت تنظیم آزادی فلسطین کو ان کی نمائندہ جماعت سمجھتا ہے اور اس کے سربراہ یاسر عرفات کو مملکت کا درجہ دیتا ہے اور پاکستان نے فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے میں جو دیلچسپی لی ہے اسے عرب ممالک قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
فلسطینی مہاجرین کی امداد
اسرائیل نے فلسطین میں عربوں پر جو ظلم ڈھائے وہ ہیٹلڑ کے مظالم سے کم نہیں تھے 9 اپریل 1943 کو اسرائیل نے عرب عورتوں، بچوں اور مردوں کا قتل عام کیا عرب میں لڑکیوں کے برہنہ جلوس نکالے اور لاؤڈ سپیکر پر اعلان کیا کہ اگر عرب یہ سلوک نہیں چاہتے تو فلسطین سے نکل جائیں اس طرح لاکھوں فلسطین اپنے مکانات کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں چلے گئے اور فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ پیدا ہوا۔پاکستان نے پوری دنیا کو اس طرف متوجہ کیا اور اپنی شدید مشکلات کے باوجود اقوام متحدہ کے مہاجرین فنڈ میں چندہ بھی دیا
فلسطینیوں کے کیمپوں پر حملے کی مذمت
1982 میں اسرائیلی فوج نے لبنان پر حملہ کیا اور اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد لبنان میں واقع فلسطینیوں کے دو مقام صابراہ اور ستیلا پر اسرائیل نے بھی حملہ کیا اور میں ان میں رہائش پذیر فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کیا۔ پاکستان نے ان دونوں واقعات کی شدید مذمت کی
پی ایل او کے مرکزی دفتر پر حملے کی مذمت
انیس سو پچاسی میں اسرائیلی طیاروں نے تیونس میں واقعہ پی ایل او کے مرکزی دفتر پرحملہ کرکے فلسطینیوں کو مالی اور جانی نقصان پہنچایا پاکستان نے اس شرمناک واقعے کی شدید مذمت کی۔