’سلیپ اپنیا‘۔ سلیپ اپنیا یونانی لفظ ’اپونیا‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب پھولی ہوئی سانس ہے۔
’سلیپ اپنیا‘ میں ہوا کی ترسیل میں متواتر مداخلت درپیش رہتی ہے، جس کی وجہ سے خون میں آکسیجن کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے۔ اس کے بعد لوگ ہلتے ہیں، ہانپتے ہیں اور سانس لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا ایک رات میں سینکڑوں مرتبہ ہو سکتا ہے اور اس کے بُرے اثرات بہت زیادہ اور شدید ہیں۔
پوری دنیا میں ایک ارب کے قریب لوگ ’سلیپ اپنیا‘ کا شکار ہیں۔
’سلیپ اپنیا‘ کا برا اثر دل پر بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ آکسیجن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ تیزی سے خون پمپ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
آکسیجن لیول کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے شریانوں میں مادہ جمع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر اورفالج کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ حالت گلوکوز میٹابولزم پر اثر انداز ہوتی ہے جو ٹائپ 2 ذیابیطس کی وجہ بنتا ہے اور اس سے وزن بھی بڑھتا ہے۔
سنہ 2015 میں سویڈن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ’سلیپ اپنیا‘ کی وجہ سے حادثات ڈھائی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق جن لوگوں کو ’سلیپ اپنیا‘ ہوتا ہے ان کے 18 سال میں مرنے کے امکانات ان سے زیادہ ہوتے ہیں جنھیں یہ نہیں ہوتا۔
اب اس پر مزید تحقیق ہو رہی ہے۔ میڈیکل سائنس اس کا کوئی حل نکالنے کر سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں جو ایک ارب یا اس سے زیادہ لوگ ’سلیپ اپنیا‘ کا شکار ہیں انھیں شاید اس کے متعلق پتا بھی نہیں ہے، علاج کرانا تو دور کی بات ہے۔
اگرچہ ’سلیپ اپنیا‘ کی وجہ کئی مستقل خطرات ہیں جیسا کہ موٹاپا، موٹی گردن اور گلے کے بڑے غدود، چھوٹا جبڑا یا بوڑھا ہونا، لیکن یہ اس وقت نمودار ہوتے ہیں جب انسان سو رہا ہوتا ہے۔ اس کی تشخیص کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ دوسرے انسان کی نیند کو مانیٹر کیا جائے۔