عائلی زندگی کی اہمیت
عائلی زندگی سے مراد ہے خاندانی زندگی۔انسان پیدائش
سے موت تک ساری زندگی اپنے خاندان میں گزارتا ہے۔خاندان کے افراد مختلف رشتوں کی بنا پر ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔انسانی تمدن کی ابتدا بھی خاندانی نظام سے ہوئی اور اس کی بقا کے لیے بھی اس کا قیام ضروری ہے۔گویا خاندان معاشرے کا بنیادی جزو ہے اور معاشرے کے اثرات خاندان پر مرتب ہوتے ہیں۔معاشرے کی بنیاد خاندانی نظام اور مرد و عورت کی پاکیزہ عائلی زندگی پر ہے۔اس پاکیزگی کے متاثر ہونے سے پیچیدگیاں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی/ ایڈز جیسے مہلک امراض پیدا ہوتے ہیں۔اس کے اللہ کی قائم کی ہوئی حدود پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں معاشرے کی شیرازہ بندی ناممکن ہے اور معاشرے انتشار سے نہیں بچ سکتا۔
زوجین کا باہمی تعلق
ارشاد باری تعالیٰ ہے
وہی اللہ ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا ،تاکہ وہ سکون حاصل کریں
اس طرح نکاح ایک جوڑے کے درمیان عائلی زندگی کی جائز بنیاد فراہم کرتا ہے جس کے نتیجہ میں پاکیزہ تعلقات وجود میں آتے ہیں .قرآن نے رشتہ ازواج کو احصان کا نام دیا ہے جس کا مطلب قلعہ بند ہو جانا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد زوجین قلعہ بند ہو جاتے ہیں۔غیراخلاقی حملوں سے بچاو کے لیے انھیں ایک مظبوط دیوار اور احصار مل جاتا ہے۔ہر ایک دوسرے کے لیے شریک رنج و راحت ،بےلوث اور غمگسار ہوتا ہے اور مشکلات و مسائل کے حل میں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔یکسوئی نصیب ہوتی ہے سوچ غور و فکر اور ذہنی صلاحتیوں میں ایک اٹھان اور ان کے استعمال میں لانے سے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔اس زندگی کا لطف اس وقت حدکمال کو پہنچ جاتا ہے۔جب گھر کے انگھن میں پھولوں جیسے بچے آجاتے ہیں جو والدین کے آپس کے تعلق کو اور مظبوط کرتے ہیں۔ہر دو طرف سے محبت اور احترام باہمی کازمزم موجزن ہوتا ہے اور گھر واقعی ایک جنت نظر آتا ہے
چونکہ انسانی کی بقاء اور اس کی افزائش اللہ تعالی کے نزدیک عائلی زندگی کا مقصد ہے اور اس پاکیزہ زندگی کا واحد راستہ عقد نکاح ہے
ورنہ فطرت کے وہ مقاصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتے تو وہ اپنے سامنے رکھتی ہے ۔لہذا کسی معاشرے کی بنیاد خاندانی نظام اور مرد عورت کے پاکیزہ والی زندگی ہے جب اس کی بنیاد ہی کو نیست و نابود کر دیا جائے تو معاشرے کی شیرازہ بندی کس طرح ممکن ہے اور اسے کیوں کر بچایا جاسکتا ہے
اسی لیے اللہ تعالی نے علی زندگی میں استحکام اور بقا کے لئے نہایت وضاحت سے ہدایت دی ہے اللہ تعالی نے شوہر بیوی کے تعلق کو محبت اور رحمت کا تعلق قرار دیا ہے ۔ارشاد ہوتا ہے
اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری ہی جانوں میں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی ۔
گویا شوہر اور بیوی کا تعلق ایک طرف تو جبلت کی تسکین کا باعث ہے اور دوسری طرف باہمی محبت اعتماد اور رحمت کا ایک رشتہ ان کے درمیان پیدا کرتا ہے ۔دونوں روحانی تعلق کی بنا پر شاہراہ حیات میں ایک دوسرے کے ہمسفر ہوتے ہیں اور ایک مقدس معاہدے کے تحت ایک دوسرے کے مونس و غمخوار ہیں اسی لیے اللہ تعالی نے ایک دوسرے پر منصفانہ حقوق مقرر کئے ہیں
زوجین کے حقوق اور فرائض
اسلامی تعلیمات کے مطابق خاندان کی کفالت مرد کی ذمہ داری ہے اسے چاہیے کہ اپنی مالی حالت کے مطابق بیوی بچوں کے لئے اخراجات لباس اور مکان کا بندوبست کرے بیوی کو اپنے مہر میں دی گئی رقم یا دیگر اپنی ذاتی ملکیت رکھنے اور کاروبار کرنے کا جائز حدود میں اختیار دے ۔بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔اس پر ظلم و زیادتی نہ کرے اس معاملے میں اللہ تعالی سے ڈرے۔ عدل و احسان کا رویہ اختیار کرے۔ وراثت کے حقوق شریعت کے مطابق ادا کرے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے نیک عورتیں فرمابردار اور شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے گھر کی محافظ ہوتی ہیں ۔
اگرچہ عورتوں پر اولاد کی کفالت کی ذمہ داری نہیں تاہم پڑھی لکھی اور ہنر مند خواتین حیاء اور پردے کا خیال رکھتے ہوئے ملازمت اور ہنرمندی کے دیگر کام کر کے روزی کما سکتی ہیں۔ مگر ہمارے ملک کی اکثر خواتین کو ان کے اپنے حقوق سے آگاہی حاصل نہیں۔ بیوی کا فرض ہے کہ وہ شوہر کی عدم موجودگی میں اس کی تمام اشیاء کی امانت کی طرح حفاظت کرے۔ اس کے راز افشا نہ کرے۔ گھر کی باتیں دوسروں کو نہ بتائے اور اس کے اموال کے ساتھ ساتھ اس کے حسب ونسب کی بھی حفاظت کرے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے مینار نور ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور
میں اپنے گھر والوں کے لئے تم سب سے بہتر ہو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ
عورت وہ ہے کہ جب شوہر اسے دیکھے تو اسے مسرت ہو ،اسے حکم دے تو وہ اطاعت کرے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کے مال کی اور اپنی حفاظت کرے
اولاد کے حقوق اور فرض
اسلام میں والدین پر اولاد کے حقوق مقرر کئے ہیں اللہ تعالی کا فرمان ہے
اہل ایمان اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو دوزخ سے بچاؤ
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی پرورش، تعلیم اور تربیت کا اہتمام کریں اور پھر اچھی جگہ ان کی شادی کریں ۔اولاد کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھیں۔ والدین کی وفات کے بعد بھی اولاد صالح انسان کے نامہ اعمال میں نیکیوں میں اضافہ کا سبب ہوتی ہے
اولاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے سوا والدین کا ہر حکم بجالائیں۔ ان سے رحمت، محبت اور نرمی کا رویہ اختیار کریں۔ ان کی رائے کو اپنی رائے پر مقدم رکھیں خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان سے نرمی اور محبت سے پیش آئیں۔ اپنی مصروفیات سے مناسب وقت ان کے لیے مختص کریں۔ ان کی بھرپور خدمت کریں اور ان کے وفات کے بعد ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں جیسے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہیں
ان دونوں کو اف بھی نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے نرمی سے بات کرو اور رحمت کے ساتھ عاجزی کے بازو ان کے لیے جھکائے رکھو۔ کہو اے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے مجھے بچپن میں پالا