نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پاکستان کی صوبائی حکومتوں کا انتظامی ڈھانچہ



1973 ء کے آئین کے تحت پاکستان ایک وفاق ہے اور علاقوں کے علاوہ اس وفاق میں چار صوبے شامل ہوں گے ۔ ان صوبوں میں الگ الگ صوبائی حکومتیں قائم کی جائیں گیں 


گورنر


ہر صوبے کا ایک گورنر ہو گا جسے صدر پاکستان مقرر
کرے گا ۔ گورنر بننے کے

قوی اسمبلی ممبر بننے کی اہلیت ، عمر کم از کم 35 سال اور پاکستان کا شہری ہونا ضروری ہے ۔

میعاد عہدہ

صوبائی گورنر کے عہدہ کے لئے کوئی میعاد مقرر نہیں ۔ وہ اسی عرصہ تک عہده پر رهے گا جب تک صدر کی مرضی ہوگی ۔ وہ صوبے میں صدر کا نمائندہ ہوتا ہے اور صدر جب چاہے اسے اس کے عہدے سے ہٹا سکتا ہے ۔
اختیارات

انتظامی اختیارات

1973 ء کے آئین کی رو سے صوبے کے انتظامی اختیارات اس صوبے کے گورنر کے نام سے استعمال کیے جائیں گے یہ اختیارات صوبائی حکومت استعال کرے گی جو وزیر اعلی اور صوبائی وزراء پر مشتمل ہو گی ۔ آئین کی رو سے وزیراعلی کا چناو صوبائی اسمبلی کرتی ہے ۔ ووٹوں کی اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیر اعلی کو گورز حکومت بنانے کی دعوت دیتا ہے ۔ وزیراعلی صرف اسی وقت تک وزیر اعلی رہتا ہے جب تک کہ اسے صوبائی اسمبلی کا اعتماد حاصل ہو اگر اس کے خلاف عدم اعتماد ووٹ پاس ہو جائے تو گور نر نئی صوبائی اسمبلی کے منتخب شدہ آدمی کو حکومت بنانے کی دعوت دیتا ہے ۔

تقرری کے اختیارات

آئین کی روسے گورنر صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ارکان ،ایڈوکیٹ جزل، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر جوں کا تقرر اور تنخواہوں کا تعین کرتا ہے ۔

قانون سازی کے اختیارات

گورنر صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب اور پرخاست کر سکتا ہے وزیر اعلی کے مشورے سے صوبائی اسمبلی توڑ سکتا ہے ۔ مسودہ قانون گورنر کی توثیق کے بعد ہی قانون کی شکل اختیار کرتا ہے ۔ صوبائی اسمبلی کے عدم اجلاس کی صورت میں آرڈی ننس جاری کر سکتا ہے ۔ جو تین ماہ تک نافذ العمل رہ سکتا ہے ۔

ہنگامی اختیارات

اگر صوبے میں ہنگامی حالات پیدا ہو جائیں اور آئینی حکومت کا چلنا مشکل ہو جائے تو صوبے کے تمام اختیارات صدر سنبھال سکتا ہے یا گور نر کو ایسا کرنے کا حکم دے سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صوبائی وزیر اعلی صوبے کا حقیقی حکمران ہوتا ہے گورنراپنے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں وزیراعلی کے مشورے کا پابند ہو گا ۔

یہ بھی پڑھیں 


وزیر اعلی

وزیر اعلی صوبے کی انتظامیہ کا حقیقی سربراہ ہوتا ہے اس کا تقرر صوبائی اسمبلی کرتی ہے وہ اسمبلی میں اکثریتی پارٹی کا سربراہ ہوتا ہے ۔ وہ اس وقت تک اپنے عہدے پر فائز رہتا ہے جب تک لے صوبائی اسمبلی کا اعتماد حاصل رہے ۔ صوبائی اسمبلی عدم اعتماد کی تحریک منظور کر کے وزیر اعلی کو اس کے عہدے سے سبکدوش کر سکتی ہے ۔ وزیر اعلی اس وقت تک اپنے عہدے پر موجود رہے گا جب تک اس کا جانشین عہدہ نہیں سنبھال لیتا ۔

وزیر اعلی کے اختیارات -

انتظامی اختیارات

صوبے کے تمام انتظامی کام وزیراعلی کے ماتحت ہوتے ہیں وہ اپنے وزراء کی مدد سے یہ اختیارات استعمال کرتاہے ۔

کابینہ کا سربراہ

وزیر اعلی اپنی مرضی سے کابینہ کے وزراء کا تقرر کرتا ہے اور اپنی مرضی سے محکمے دیتا ہے وہ گورنر سے مشورہ کیے بغیر وزارت سے کسی کو نکال سکتا ہے اور نیا وزیر لے سکتا ہے وہ اپنی کابین کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتاہے 

تقرری کے اختیارات

صوبائی گورنر تمام تقرریاں وزیراعلی کے مشورے سے کرتا ہے ۔ گورنر کو وزیراعلی کی خواہشات کا احترام کرناپڑتاہے ۔

قانون سازی کے اختیارات

وزیر اعلی گورنر کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ دے سکتا ہے وزیراعلی صوبائی اسمبلی کی اکثریتی پارٹی کا لیڈر ہوتا ہے اس لئے کابینہ کے پیش کردہ تمام مسودے قانون کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

مالیاتی اختیارات

تمام مالیاتی بل وزیر اعلی کی ہدایت کے مطابق تیار ہوتے ہیں انہیں اسمبلی کی منظوری سے قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ وہ سالانہ بجٹ تیار کراتا ہے اور وزیر خزانہ کی مددسے صوبائی اسمبلی سے منظور کراتاہے

آرڈی ننس کا نفاز

اگر صوبائی اسمبلی کا اجلاس نہ ہو رہا ہو اور صوبے میں کسی خاص قسم کے قانون کی ضرورت ہو تو گورنر آرڈی ننس جاری کر سکتا ہے مگر اس آرڈی ننس کانفاق وزیراعلی کے مشورہ سے عمل میں آتاہے ۔

کابینہ

صوبائی انتظامی ڈھانچے میں صوبائی کابینہ کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ کابینہ میں مختلف کاموں کے وزراء ہوتے ہیں ۔ تمام وزراء وزیراعلی کی سربراہی میں ایک ٹیم کی حیثیت سے کام کرتے ہیں وہ کسی صورت میں بھی وزیر اعلی کی خواہش کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ اگر وہ اس کی مرضی کے مطابق عمل نہ کریں تو وزیر اعلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انہیں عہدے سے الگ کر دے ۔ صوبائی وزراء کے عہدے کا انحصار وزیر اعلی کی خوشنودی پر ہوتا ہے ۔ وزارت کے کسی ایک محکمے میں گڑبر تمام کابینہ کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اس لئے ہر وزیر اپنے کام کے معاملے میں بہت محتاط ہو تا ہے ۔ تمام کابینہ صوبائی اسمبلی کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے ۔

صوبائی مقتنہ

صوبائی انتظامی ڈھانچے میں صوبائی قانون ساز ادارہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ پاکستان میں چار صوبے ہیں ہر صوبے کی الگ الگ مقننہ ہے ۔ صوبائی مقننہ یک ایوانی ہے جس کو صوبائی اسمبلی کہا جاتا ہے ۔ چاروں صوبوں کی اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد یکساں نہیں ہے ۔ صوبائی اسمبلی کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے پاکستان کا شہری ہونا کم از کم 25 سال عمر اور صوبائی اسمبلی کے کسی حلقے میں ووٹر کی حیثیت سے اس کا نام درج ہونا ضروری ہے ۔

صوبائی اسمبلی کی میعاد

صوبائی اسمبلی پانچ سال کے لئے منتخب کی جاتی ہیں لیکن اسے مدت مکمل ہونے سے قبل بھی توڑاجاسکتاہے ۔
اختیارات ۔

سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا چناؤ

صوبائی اسمبلی اپنا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر خود چنتی ہے ۔ یہ دونوں اس عہدے پر اس وقت تک رہتے ہیں جب تک انہیں اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو ۔ سپیکر اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرتا ہے اور اسمبلی میں نظم و ضبط قائم رکھنے کا زمہ دار ہوتا ہے ۔

وزیر اعلی کا چناؤ

صوبائی اسمبلی کثرت رائے سے ایک آدی کو وزیراعلی کے طور پر چنتی ہے اور اس کے بعد صوبائی گورنر اسے حکومت بنانے کے دعوت دیتا ہے ۔

عدم اعتماد کی تحریک

صوبائی اسمبلی وزیراعلی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کل ارکان کی اکثر کے ووٹوں سے منظور کر سکتی ہے اور اس طرح وزیر اعلی اپنی کابینہ سمیت اپنے عہدے سے الگ ہو جائے گا اور قرارداد میں جو متبادل بام ہوگا اسے گورنر کابینہ بنانے کی دعوت دے گا ۔

انتظامیہ کی نگرانی

صوبائی اسمبلی صوبائی حکومت پر کڑی نظر رکھتی ہے اس سلسلے میں ارکان اسمبلی وزراء سے ان کی کارکردگی کے بارے میں سوالات پوچھ سکتے ہیں وہ انتظامیہ پر کڑی نکتہ چینی کر سکتے ہیں اس سے انتظامیہ محتاط ہو جاتی ہے ۔

مالیاتی اختیارات

صوبائی اسمبلی مالی معاملات میں وسیع اختیارات رکھتی ہے صوبے میں کوئی نیا ٹیکس اسمبلی کی اجازت کے بغیر نہیں لگایا جا سکتا اسی طرح کوئی ٹیکس صوبائی اسمبلی کی اجازت کے بغیر منسوخ بھی میں کیا جا سکتا ہے ۔ صوبائی اسمبلی سالانہ صوبائی بجٹ منظور کرتی ہے اور اس کے بعد ہی یہ صوبے میں نافذ العمل ہوتا ہے ۔

قوانین میں ترمیم

صوبائی اسمبلی نافذ العمل قوانین میں ترمیم کر سکتی ہے ۔

قانون سازی کے اختیارات

صوبائی اسمبلی صوبے کی حدود کے اندر کے کسی خطے کے لئے قانون وضع کر سکتی ہے اسے مشترکہ قانون سازی کی فہرست میں شامل معاملات کے متعلق قانون بنانے کا حق بھی حاصل ہوتا ہے ۔

آرڈی ننس

صوبائی اسمبلی گورنر کے جاری کرده آرڈی ننس کو منظوره منسوخ یا اس میں ترمیم کر سکتی ہے ۔

صوبائی عدلیہ

پاکستان ایک وفاق ہے اس لئے سپریم کورٹ کے علاوہ ہر صوبے میں ایک ہائی کورٹ ہوگی

ہائی کورٹ کی تشکیل

ہائی کورٹ میں ایک چیف جسٹس اور دوسرے جج ہوتے ہیں جن کی تعداد قانون سازی کے ذریعے مقرر کی جاتی ہے اگر وہ صوبے بباہمی سمجھوتہ کر لیں تو مشترکہ ہائی کورٹ بھی قائم کی جاسکتی ہے جیسے سندھ بلوچستان ہائی کورٹ ۔

ججوں کا تقرر

صدر پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور متعلقہ گورنر کے مشورہ سے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر کرے گا ۔ اور دیگر جوں کی تقری کے لئے صدر چیف جسٹس سپریم کورٹ متعلقہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اور متعلق گورنر سے مشورہ کرتا ہے ۔

اہلیت

ہائی کورٹ کا جج اس شخص کو مقرر کیا جائے گا جو پاکستان کا شہری ہو جس کی عمر کم از کم چالیس سال ہو اور جو کم از کم دس سال تک کی ہائی کورٹ میں ایڈوکیٹ رہا ہو ۔ جس نے کم از کم تین سال تک پاکستان میں ڈسٹرکٹ جج کی حیثیت میں کام کیا ہو ۔

ریٹائرمنٹ کی عمر

ہائی کورٹ کاج باسٹھ سال کی عمر تک اپنے عہدے پر رہے گا بشرطیکہ وہ اس سے پہلے استعفی نہ دے دے یا اسے آئین کے مطابق عہدے سے الگ نہ کر دیا جائے ۔
ہائی کورٹ کے اختیارات
ہائی کورٹ صوبہ کی اعلی عدالت ہے اسے آئین کی رو سے وسیع اختیارات حامل ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔ -

ابتدائی اختیارات

ہائی کورٹ کو بعض مقدمات میں ابتدائی سماعت کے اختیارات حاصل ہیں ۔

ماتحت عدالتوں کے کام کی نگرانی

ہائی کورٹ اپنی تمام ماتحت عدالتوں کے کام کی نگرانی کرتی ہے

بنیادی حقوق کا تحفظ

ہائی کورٹ اپنے دائرہ کار میں عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہے اگر کوئی کسی کے بنیادی حقوق کو پامال کرے تو اس کے خلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے

قواعد کار کی تشکیل

آئین اور قانون کی حدود کے اندر کوئی ہائی کورٹ اپنے اپنی کسی بھی ماتحت عدالت کے لئے کاروائی اور طریق کار کے قواعد مقرر کر سکتی ہے ۔

نظرثانی کے اختیارات

ہائی کورٹ اپنی ماتحت عدالتوں کی کاروائیوں پر نظرثانی کر سکتی ہے اور ان عدالتوں میں کسی مقدے کو اپنے ہاں منتقل کر سکتی ہے ۔

اپیل کی سماعت 

ہائی کورٹ کو اپنے دائرہ اختیارات میں تمام عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی ساعت کا اختیار ہو گا ۔ یہ ماتحت عدالتوں کی دی ہوئی سزاوں میں کمی بیشی کرنے کی مجاز ہوتی ہے ۔

عدالت کے وقار کا تحفظ

اگر کوئی فرد عدالت کے احکام کا احترام نہ کرے بلکہ اس کے کام میں رکاوٹ بنے یا عدالت اور ججوں کے وقار کو مجروح کرے تو اس کے خلاف ہائی کورٹ میں توہین عدالت کا مقدمہ دائرکیا جاسکتاہے

یہ پڑھیں

ٹڈی دل کیا ہے؟ اسلام میں اس کی کیا حثیت ہے؟

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اسوہ حسنہ ﷺ

اسوہ حسنہ ﷺ اللہ‎ تعالی کا قانون ہے کے جب باطل سر اٹھاتا ہے تو اسے کچلنے کے لیے حق کی طاقت سامنے آتی ہے۔جب نمرود نے خدائی کا دعوی کیا تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اس دنیا میں بھجا گیا۔جب فرعون نے خدائی کا دعوی کیا تو اس کے گمنڈ کو خاک میں ملانے کے لیے خدا نے حضرت موسی علی السلام کو دنیا میں بھجا۔ ٹھیک اسی طرح عرب میں جہالت کا بازار گرم تھا۔ہر طرف جھوٹ اور باطل تھا۔ظلم و ستم عام تھا۔لوگ گمراہی میں ڈوبے ہوے تھے۔قتل و غارت عام تھی ہر طرف چوری چکاری، دھوکے بازی کا راج تھا۔بیٹی جیسی نعمت کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔اگر لڑائی ہو جاتی تو جھگڑا صدیوں تک جاری رہتا تھا۔ کہیں تھا مویشی چرانے پر جھگڑا  کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا  یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں  یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں  پھر ان کو ہدایت پر لانے کے لیے ایک بچے نے جنم لیا۔یہ ربیع اول کا مہینہ تھا۔رات کا اندھرا چھٹا اور نبیوں کے سردار پیدا ہوے جنہوں نے بڑے ہو کر دنیا میں حق قائم کیا اور پوری دنیا میں علم کی روشنی پھلا دی۔ یہ...

اسلام اور عفو و درگزر

عفوودگزر کا مطلب عفو کے معنی ہیں مٹانا ، معاف کرنا ، نظر انداز کرنا اور چشم پوشی کرنا ہیں۔عفو اور درگزر دو مترادف الفاظ ہیں۔اسلامی شریعت میں انتقام لینے اور سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود صرف اللہ کی رضا اور مجرم کی اصلاح کے لیے کسی کی لغزش ، برائی اور زیادتی کو برداشت کرتے ہے غصہ ہونے کے باوجود معاف کرنا عفو ودرگزر کہلاتا ہے۔عفو اللہ‎ کی صفت ہے اور اس کے اسمائے حسنی میں سے ہے۔معاف کرنا بلند ہمتی فضیلت والا کام ہے۔رسولﷺ کے اخلاق میں اس فعل کو بہت زیادہ بلند مقام حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ اس صفت کو اپنے بندوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ارشاد ربانی ہے معاف کرنے کی عادت ڈالو نیک کاموں کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرو عفو کا مطلب ہرگز نہیں ہے کے بدلہ یا انتقام نہ لیا جائے ۔جہاں بدلہ ناگزیر ہو جائے وہاں عفو کی بجاے انتقام لینا ہی بہتر ہے تاکہ شرپسند افراد کو اس ناجائز رعایت سے فائدہ اٹھا کر معاشرے کا امن وسکوں برباد نہ کر سکیں ۔اور دینی اور اجتماعی یا معاشرتی یا اخلاقی حدود پر ضرب نہ لگا سکیں۔ عفو درگزر کی اہمیت اسلامی اخلاق میں عفو ودرگزر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔اشاعت ا...

پاکستان میں پائے جانے والے معدنیات کی تفصیل۔

معدنیات   پاکستان میں مدنی وسائل کی ترقی کیلئے س1975 میں معدنی ترقیاتی کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا ۔معدنیات کو دھاتی اور غیر دھاتی معدینات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں دھاتی معدنیات میں شامل ہیں  لوہا تانبا کرومائیٹ پاکستان کی غیر دھاتی معدنیات میں شامل ہیں معدنی تیل قدرتی گیس خوردنی نمک چونے کا پتھر سنگ مرمر چپسم ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔ معدنی تیل انسان کے لیے معدنی تیل اور اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات کی معاشی اہمیت صنعتوں میں استعمال ہونے والی تمام معدنیات سے بڑھ چکی ہے ۔مدنی تیل کی اہم مصنوعات میں گیسولین، ڈیزل ،موبل آئل، موم اور کول تار اور مٹی کا تیل وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں تیل صاف کرنے کے کارخانے موجود ہیں۔ پاکستان میں آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے قیام کے بعد تیل کی تلاش کے کام میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان میں سطح مرتفع پوٹھوار کا علاقہ معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم خطہ ہے۔ اس علاقے کے معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم سطح ہے اس کے علاقے میں معدنی تیل کے کنوئیں بلکسر ،کھوڑ ،ڈھلیاں ،جویا میر، منوا...