نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دو فرشتوں کی روزانہ کی پکار ایک کی دعا دوسرے کی بددعا


دو فرشتوں کی روزانہ کی پکار ایک کی دعا دوسرے کی بددعا 



ہر دن صبح کے وقت آسمان سے دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتاہے کہ اے اللہ!خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما اور دوسرا کہتاہے (کہ ضرورت کے موقع پر بھی) روک رکھنے والے کوہلاکت عطا کر۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :ہر دن صبح کے وقت آسمان سے دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتاہے کہ اے اللہ!خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما اور دوسرا کہتاہے (کہ ضرورت کے موقع پر بھی) روک رکھنے والے کو( مال کی )ہلاکت عطا کر۔

اللہ جل شانہ ‘کے قائم کردہ نظام کائنات میں ہزاروں نہیں لاکھوں ایسے واقعات ہوں گے جو انسان کی آنکھ اور اس کے حواس کی دسترس سے باہر ہوں گے ۔ہماری آگاہی صرف ہمارے محدود علم تک ہی ہوتی ہے ۔

کی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ،سائنس اسے معلوم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔نت نئی معلومات ہم تک پہنچ رہی ہیں اور ہم سائنسدانوں کے کہنے کی وجہ سے انہیں ماننے پر مجبور ہیں ۔اسی طرح روحانی یا باطنی نظام میں بھی بہت کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے ،جہاں عام انسان کی آنکھ کی رسائی ممکن نہیں ۔انبیاء علیہم السلام اس نظام کی باریکیوں سے خوب خوب واقفیت رکھتے ہیں اور ان کی طاقتور صلاحیتیں ان کا ادراک کر لیتی ہیں ۔


اس حدیث میں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن کے اندر ہونے والے غیبی واقعات میں سے صرف ایک واقعہ فرمایا ہے کہ ہر دن کی صبح کو دو فرشتے آسمان سے اُترتے ہیں اور دو باتیں کہتے ہیں یا یوں کہئے کہ وہ دو دعائیں کرتے ہیں ۔

ایک فرشتہ کہتاہے کہ اے اللہ جو شخص تیرے حکم کے مطابق اپنے مال کو خرچ کر رہا ہے تو اُسے اس کا بدلہ عطا فرما جبکہ دوسرا فرشتہ کہتا ہے کہ اے اللہ جو شخص ضرورت کے موقعے پر بھی مال خرچ کرنے سے گریزاں ہے اور بخل سے کام لے رہا ہے ،تو اُس کے مال کو تلف کر دے ۔حدیث شریف کے الفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ ان دو فرشتوں کی دن کی صرف یہی کام ہے جسے وہ پوری پابندی سے ادا کرتے ہیں ۔

اور سمجھ میں آتا ہے کہ اعلانات کا یہ سلسلہ اسی طرح قیامت تک جاری رہے گ

اس مفہوم کے اعتبار سے منفق وہ شخص ہے جو اپنے طیب اور حلال مال سے اللہ کے حکم کے مطابق طاعات اور نیکی کی راہوں میں خرچ کرے ۔بلا ضرورت اور ضرورت سے زیادہ خرچ سے گریز کرے ۔قرآن میں اس عمل کو متقین اور موٴمنین کی اعلیٰ صفات میں شمار کیا گیا ہے ۔سورئہ آل عمران آیت 134میں ارشاد بانی ہے کہ جنت متقی لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو آسودگی اور تنگی میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔

اس لئے کہ اس سے ضرورت مندوں ،محتاجوں اور مفلسوں کی ضروریات کا سدباب ہوتاہے ۔امیر اور غریب کے درمیان کے فاصلے کم ہوتے ہیں اور وہ لوگ ایسے شخص کے لئے دعاء گو رہتے ہیں ۔اس پس منظر میں فرشتوں کی نمائندگی کے لئے ہر صبح کو ایک فرشتہ اترتاہے اور اس خوش قسمت انسان کے حق میں دعاء کرتاہے کہ اے اللہ جو شخص تیرے دیئے ہوئے مال سے مستحق لوگوں کی ضروریات پوری کر رہا ہے تو اپنی مہر بانی سے اس کے بدلے میں اُسے اور مال عطا کرتا کہ اسے کمی کا احساس نہ ہو اور وہ یونہی اس کار خیر میں آگے بڑھتا رہے۔


اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اسوہ حسنہ ﷺ

اسوہ حسنہ ﷺ اللہ‎ تعالی کا قانون ہے کے جب باطل سر اٹھاتا ہے تو اسے کچلنے کے لیے حق کی طاقت سامنے آتی ہے۔جب نمرود نے خدائی کا دعوی کیا تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اس دنیا میں بھجا گیا۔جب فرعون نے خدائی کا دعوی کیا تو اس کے گمنڈ کو خاک میں ملانے کے لیے خدا نے حضرت موسی علی السلام کو دنیا میں بھجا۔ ٹھیک اسی طرح عرب میں جہالت کا بازار گرم تھا۔ہر طرف جھوٹ اور باطل تھا۔ظلم و ستم عام تھا۔لوگ گمراہی میں ڈوبے ہوے تھے۔قتل و غارت عام تھی ہر طرف چوری چکاری، دھوکے بازی کا راج تھا۔بیٹی جیسی نعمت کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔اگر لڑائی ہو جاتی تو جھگڑا صدیوں تک جاری رہتا تھا۔ کہیں تھا مویشی چرانے پر جھگڑا  کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا  یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں  یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں  پھر ان کو ہدایت پر لانے کے لیے ایک بچے نے جنم لیا۔یہ ربیع اول کا مہینہ تھا۔رات کا اندھرا چھٹا اور نبیوں کے سردار پیدا ہوے جنہوں نے بڑے ہو کر دنیا میں حق قائم کیا اور پوری دنیا میں علم کی روشنی پھلا دی۔ یہ...

سچ کیا ہے؟ اسلام میں سچائی کی اہمیت

سچائی کا اسلام میں ایک اہم مقام ہے۔جھوٹے پر لعنت بھجی گئی ہے۔سچے انسان کو کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے۔حضور ﷺ کو لوگ صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے ۔لوگ ان کے پاس امانتں رکھواتے تھے ۔اسی طرح حضرت ابوبکرصدیق راضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کی نبوت پر یقین کیا تو انہوں نے صدیق کا لقب پایا۔ اسلام کی اخلاقی اقدار اور معاشرتی زمہ داریوں میں سے اہم ترین اور تمام عمدہ صفات کا منبع صدق اور سچائی ہے ۔ صدق ایمان کی علامت اور آخرت کا توشہ ہے ۔ پچ سے مراد یہ ہے کہ ہر حال میں انسان کا ظاہرو باطن ایک ہو ۔ دل اور زبان میں یکسانیت ہو ،قول و فعل میں مطابقت ہو ، غلط بیانی ، جھوٹ مکر و فریب اور دھوکہ بازی سے اجتناب ہو۔ صدق کے معنی ہیں سچ بولنا اور سچ کر دکھانا ۔ صدیق اسے کہا جاتا ہے جو ہمیشہ سچ بولے ۔ اپنی فراست اور ایمان اور دل کی پاکیزگی سے حق کی تصدیق کرے ۔ اللہ رب العزت نے صدق اور سچائی کو انبیاء اولیاء اور صلحاء کی صفت قراردیا ہے اور سچ بولنے والوں کو انبیا کا ساتھی قرار دیا ہے ۔ یاجوج ماجوج کون ہیں؟ اور کب آئیں گے؟ قرآن مجید کا تعارف  نبوت سے قبل اہل مکہ جناب رسالت ماب کو صادق اور ...

پاکستان میں پائے جانے والے معدنیات کی تفصیل۔

معدنیات   پاکستان میں مدنی وسائل کی ترقی کیلئے س1975 میں معدنی ترقیاتی کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا ۔معدنیات کو دھاتی اور غیر دھاتی معدینات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں دھاتی معدنیات میں شامل ہیں  لوہا تانبا کرومائیٹ پاکستان کی غیر دھاتی معدنیات میں شامل ہیں معدنی تیل قدرتی گیس خوردنی نمک چونے کا پتھر سنگ مرمر چپسم ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔ معدنی تیل انسان کے لیے معدنی تیل اور اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات کی معاشی اہمیت صنعتوں میں استعمال ہونے والی تمام معدنیات سے بڑھ چکی ہے ۔مدنی تیل کی اہم مصنوعات میں گیسولین، ڈیزل ،موبل آئل، موم اور کول تار اور مٹی کا تیل وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں تیل صاف کرنے کے کارخانے موجود ہیں۔ پاکستان میں آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے قیام کے بعد تیل کی تلاش کے کام میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان میں سطح مرتفع پوٹھوار کا علاقہ معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم خطہ ہے۔ اس علاقے کے معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم سطح ہے اس کے علاقے میں معدنی تیل کے کنوئیں بلکسر ،کھوڑ ،ڈھلیاں ،جویا میر، منوا...