نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کائنات کیسے وجود میں آئی؟بگ بینگ تھیوری کیا ہے ؟



بگ بینگ سے کائنات کیسے وجود میں آئی؟


انسان وہ واحد مخلوق ہے جسے عقل اور سمجھ بوجھ جیسی نعمت حاصل ہے۔اس سوچنے کی صلاحیت نے انسان کو متجس بنایا ہے کے وہ ہر چیز کے بارے میں جان سکے۔انسان برسوں سے اس کوشیش میں لگا ہوا ہے کے اس کائنات کے بارے میں اور اپنے آس پاس کے ماحول کی کھوج لگا سکے اور ان رازوں سے پردہ اٹھا سکے جو آج تک پوشیدہ ہیں۔ان چیزوں کی چاہ نے انسان سے سر توڑ کوشیش کرائی یہاں تک کے آج انسان نہ صرف چاند تک پہنچ گیا بلکہ کروڑوں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع کہکشاوں تک بھی رسائی حاصل کر لی ہے۔

انسان کے دماغ میں شروع سے بہت سوالات جنم لیتے رہے ہیں ان سوالات میں ایک سوال کائنات کی تخلیق کے بارے میں بھی ہے۔انسان نے کوشیش کی کے کائنات کے خفیہ رازوں کی جانا جاسکے۔بہت سے رازوں کو جان لیا گیا ہیں مگر ابھی بھی کچھ حقیقت کی کھوج جاری ہے۔

انسان کی کھوج ہزاروں سال سے جاری ہے اور نئی نئی دریافت ہوتی رہیں۔چار سو سال پہلے یورپ نے سائنس میں انقلاب برپا کیا جس کی وجہ سے انسان کے ہزاروں سال پہلے نظریے کو غلط قرار دیا گیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس میں بہت سے نئے اصول متعارف کرائے گے۔نت نئے اور جدید آلات ایجاد کیے گے جن کی مدد سے کائنات کے سربستہ رازوں کو جاننے میں مدد ملی۔

انسان آج جدید ٹیکنالوجی کے زریعے کائنات کی مکمل حقیقت کو جاننے کے لیے کوشاں ہے۔انسان کائنات کی اسی حقیقت کو جاننا چاہتا ہے جس میں کوئی وہم و گمان نہ ہو۔ان ساری کھوج میں ایک تھیوری بھی سامنے آچکی ہے جس کا نام بگ بینگ تھیوری ہے۔جس کا شاید آپ نے نام ضرور سنا ہوگا۔آج اس بگ بینگ تھیوری کے بارے میں جاننے کی کوشیش کرتے ہیں۔

بگ بینگ انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے بڑا دھماکہ ۔بگ بینگ کے دھماکے سے ہی ہماری کائنات وجود میں آئی ہے۔ اس کے مطابق کائنات کے بننے سے پہلے تمام مادہ سوئی کے ہزارویں حصّے کے برابر بہت ہی خفیف جگہ میں بند تھا۔ اگر مادے میں بہت زیادہ توانائی ہو، دنیا کے کسی بھی ذریعے سے حاصل کردہ توانائی سے زیادہ، تو پھر کششِ ثقل یعنی گریویٹی چیزوں کو اپنی جانب کھینچنے کے بجائے ایک دوسرے سے دور دھکیلنے والی قوّت بن جاتی ہے۔

اسی کی وجہ سے سائنس کے مطابق بگ بینگ وہ شرواتی آغاز تھا جب سارے مادہ دھماکے کے بعد بہت تیزی سے ایک دوسرے سے دور ہونے لگا اور خلا میں پھیل گیا۔ان کی رفتار بہت زیادہ تیز تھی۔اپنی تیز رفتار کی وجہ سے یہ بہت جلدی کائنات میں تیزی سے پھیلنے لگا۔

بگ بینگ تھیوری کے مطابق ہماری کائنات کو بنے ہوے 13.8 ارب سال ہوگے ہیں۔کائنات کی عمر کو ہبل خلائی دوربین کے زریعے جانا گیا ہے۔اس دوربین سے لی گئی تصور میں جو سب سے پرانی کہکشاں نظر آتی ہے وہ زمین سے 13.4 ارب نوری سال دور ہے جس سے معلوم ہوا کے کائنات کی عمر بھی اس فاصلے کے تقریبا برابر ہے۔


نوری سال ایک فاصلہ ہے یہ کوئی وقت کا پیمانہ نہیں ہے۔نوری سال کا مطلب ہے کے ایک نوری سال کا فاصلہ تقریبا 10 کھرب کلومیٹر کے برابر ہے۔اتنا فاصلہ روشنی ایک سال میں مکمل کرتی ہے۔تو ذرا سوچئے کے اگر ایک نوری سال 10 کھرب کلومیٹر کے برابر ہے تو 13.8 ارب نوری سال کتنے کلومیٹر کے برابر ہو گا۔اگر ہم اس کو ناپ سکیں کہ کسی دور دراز واقع ستارے سے روشنی ہم تک پہنچنے میں کتنے سال لگتے ہیں تو ہم پرانی سے پرانی کہکشاوں کو جان سکتے ہیں۔آج تک جس کہکشاں کا ہم نے پتا لگایا ہے وہ ہم سے 13.4 ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے جس سے ہم اپنی کائنات کی عمر کا اندازہ لگاتے ہیں کے اس کی عمر اس کہکشاں کے ہم سے فاصلے کے برابر ہے۔

13.8 ارب سال پہلے نہ کو سورج تھا نہ کوئی ستاره اور نہ ہی یہ کہکشاں ۔جب بگ بینگ کا دھماکہ ہوا تو اس دوران بڑے بڑے ہائیڈروجن گیس کے بادل پیدا ہوے۔
خلاء میں موجود یہ ہائیڈروجنن بادلوں کے جس حصوں میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی مقدار زیادہ تھی، ان حصّوں میں گیسز سکڑنے لگیں اور سکڑتے ہوے بہت گرم اجسام کی شکل بن گئی جو ستارے کہلاتے ہیں۔ ان ستاروں کے پاس جہاں پر گیسز کی مقدار کم تھی، وہاں بھی گیسز سکڑتی گئی اور ستاروں سے کم گرم اجسام بن گئی ۔ یہ اجسام سائز میں ستاروں سے کم تھے اور کسی اپنے سے بڑے نزدیکی ستارے کی بہت زیادہ کشش کی وجہ سے ستارے کے مدار میں چکر لگانے لگے۔ ان اجسام کو سیارے کہتے ہیں۔

بہت سے ستارے آپس کی کشش کی وجہ سے جھرمٹ کی شکل کے بن گئے جس کی وجہ کہکشائیں وجود میں آئیں۔ ہمارے سورج اور زمین جس کہکشاں میں ہے اس کہکشاں کو ملکی وے کہتے ہیں۔اس کا مطلب ہے دودھیا راستہ ۔ہماری کہکشاں کا نام ملکی وے اس لیے رکھا گیا ہے کیوں کہ اس پائے جانے والے بہت سارے ستارے سفید ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے جیسے دودھ کا راستہ ہو۔

جب زمین وجود میں آئی تو اپنے مدار اور سورج کے گرد بہت تیزی سے چکر لگانے لگی اور پھر آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی۔ زمین کی پیدا ہونے کے وقت اس کی شکل ہر جگہ آتش فشاں پھٹنے جیسے تھی۔ لیکن جیسے ہی گرمی کم ہونے لگی تو زندگی وجود میں آنے لگی ۔ اس وقت نہ کوئی انسان تھا اور نہ ہی کو جانور تھا یہاں تک کہ زمین کے سب سے چھوٹے جاندار بیکٹیریا بھی پیدا نہیں ہوے تھے ۔ لیکن اس وقت بھی زمین پر زندگی کو قائم کرنے والے عناصر یعنی معدنیات موجود تھے۔

اس کے بعد کیمیائی عمل شروع ہوا جس میں زمین پر پائے جانے والے معدنیات کے چھوٹے خلیے مل گئے اور مالیکیولز بننے لگے اور پھر ان لاکھوں مالیکیولز کے ملنے سے ایسے خلیے وجود میں آئے جو خود سورج کی روشنی استعمال کر کے اپنی خوراک بنانے کے قابل تھے اور ان کا ایک بنیادی اصول تھا کہ مرنے سے پہلے ہر خلیہ ایک دوسرے سے دور ہو جاتا جس کی وجہ سے ان کی تعداد بڑھتی رہی۔

بیکٹیریا ایسے واحد جاندار تھے جنہیں زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ یہ خود آکسیجن پیدا کرتے تھے۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے زمین پر فضا میں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہونے لگی۔ فضا میں بڑھتی ہوئی آکسیجن کی مقدار کے ساتھ ساتھ مادے سے خلیے بننے کا عمل رک گیا۔اسی کی وجہ ہے کے آج کوئی جاندار بے جان چیزوں سے نہیں بنتا۔

ایسا کیمائی عمل دنوں یا سالوں میں نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ ایسی لمبی زنجیر ہے جس کی ایک ایک کڑی کے جڑنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ اس کے بعد چھوٹے جانداروں سے دوسرے بڑے جانداروں کے بننے کا عمل شروع ہوا۔ بیکٹیریا سے شروع ہونے والا ارتقائی عمل بہت سے خلیوں پر مشتمل جانداروں کی تشکیل کی وجہ بنا۔ اس میں سب سے پہلے مچھلیاں پیدا ہوئیں اس کے بعد زمین اور پانی یا دونوں میں رہنے والے جاندار بنے اس کے بعد پھر رینگنے والے جانور پیدا ہوے۔اس کے بعد پھر پرندے، اور سب سے آخر میں بھیڑ، بکری، گائے، انسان وغیرہ پیدا ہوے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے گئے۔

ان تمام تر چیزوں کو جاننے کے بعد بھی انسان کائنات کے تمام رازوں سے پردہ نہیں اٹھا پایا ہے۔کیوں کے یہ کائنات ایک لمبی زنجیر ہے جس کے کڑیاں ابھی تک غائب ہیں اور ان کی تلاش جاری ہے۔ان کڑیوں کی تلاش کر کے ہی انسان کائنات کی مزید معلومات جان سکتا ہے۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اسوہ حسنہ ﷺ

اسوہ حسنہ ﷺ اللہ‎ تعالی کا قانون ہے کے جب باطل سر اٹھاتا ہے تو اسے کچلنے کے لیے حق کی طاقت سامنے آتی ہے۔جب نمرود نے خدائی کا دعوی کیا تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اس دنیا میں بھجا گیا۔جب فرعون نے خدائی کا دعوی کیا تو اس کے گمنڈ کو خاک میں ملانے کے لیے خدا نے حضرت موسی علی السلام کو دنیا میں بھجا۔ ٹھیک اسی طرح عرب میں جہالت کا بازار گرم تھا۔ہر طرف جھوٹ اور باطل تھا۔ظلم و ستم عام تھا۔لوگ گمراہی میں ڈوبے ہوے تھے۔قتل و غارت عام تھی ہر طرف چوری چکاری، دھوکے بازی کا راج تھا۔بیٹی جیسی نعمت کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔اگر لڑائی ہو جاتی تو جھگڑا صدیوں تک جاری رہتا تھا۔ کہیں تھا مویشی چرانے پر جھگڑا  کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا  یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں  یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں  پھر ان کو ہدایت پر لانے کے لیے ایک بچے نے جنم لیا۔یہ ربیع اول کا مہینہ تھا۔رات کا اندھرا چھٹا اور نبیوں کے سردار پیدا ہوے جنہوں نے بڑے ہو کر دنیا میں حق قائم کیا اور پوری دنیا میں علم کی روشنی پھلا دی۔ یہ...

اسلام اور عفو و درگزر

عفوودگزر کا مطلب عفو کے معنی ہیں مٹانا ، معاف کرنا ، نظر انداز کرنا اور چشم پوشی کرنا ہیں۔عفو اور درگزر دو مترادف الفاظ ہیں۔اسلامی شریعت میں انتقام لینے اور سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود صرف اللہ کی رضا اور مجرم کی اصلاح کے لیے کسی کی لغزش ، برائی اور زیادتی کو برداشت کرتے ہے غصہ ہونے کے باوجود معاف کرنا عفو ودرگزر کہلاتا ہے۔عفو اللہ‎ کی صفت ہے اور اس کے اسمائے حسنی میں سے ہے۔معاف کرنا بلند ہمتی فضیلت والا کام ہے۔رسولﷺ کے اخلاق میں اس فعل کو بہت زیادہ بلند مقام حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ اس صفت کو اپنے بندوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ارشاد ربانی ہے معاف کرنے کی عادت ڈالو نیک کاموں کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرو عفو کا مطلب ہرگز نہیں ہے کے بدلہ یا انتقام نہ لیا جائے ۔جہاں بدلہ ناگزیر ہو جائے وہاں عفو کی بجاے انتقام لینا ہی بہتر ہے تاکہ شرپسند افراد کو اس ناجائز رعایت سے فائدہ اٹھا کر معاشرے کا امن وسکوں برباد نہ کر سکیں ۔اور دینی اور اجتماعی یا معاشرتی یا اخلاقی حدود پر ضرب نہ لگا سکیں۔ عفو درگزر کی اہمیت اسلامی اخلاق میں عفو ودرگزر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔اشاعت ا...

پاکستان میں پائے جانے والے معدنیات کی تفصیل۔

معدنیات   پاکستان میں مدنی وسائل کی ترقی کیلئے س1975 میں معدنی ترقیاتی کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا ۔معدنیات کو دھاتی اور غیر دھاتی معدینات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں دھاتی معدنیات میں شامل ہیں  لوہا تانبا کرومائیٹ پاکستان کی غیر دھاتی معدنیات میں شامل ہیں معدنی تیل قدرتی گیس خوردنی نمک چونے کا پتھر سنگ مرمر چپسم ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔ معدنی تیل انسان کے لیے معدنی تیل اور اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات کی معاشی اہمیت صنعتوں میں استعمال ہونے والی تمام معدنیات سے بڑھ چکی ہے ۔مدنی تیل کی اہم مصنوعات میں گیسولین، ڈیزل ،موبل آئل، موم اور کول تار اور مٹی کا تیل وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں تیل صاف کرنے کے کارخانے موجود ہیں۔ پاکستان میں آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے قیام کے بعد تیل کی تلاش کے کام میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان میں سطح مرتفع پوٹھوار کا علاقہ معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم خطہ ہے۔ اس علاقے کے معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم سطح ہے اس کے علاقے میں معدنی تیل کے کنوئیں بلکسر ،کھوڑ ،ڈھلیاں ،جویا میر، منوا...