ابتدائی مشکلات
1۔ریڈ کلف ایوارڈ کی نا انصافیاں
3 جون 1947 ء کے منصوبہ کے تحت طے پایا تھا کہ پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو مسلم اور غیرمسلم اکثریتی علاقوں میں تقسیم کیا جائے گا ۔ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور باقی علاقے ہندوستان کا حصہ بنیں گے ۔ علاقوں کی حد بندی کے لیے ایک کمیشن بنانے اور اس کی ثالثی کو قبول کرنے پر اتفاق رائے ہوا ۔ ایک برطانوی ماہر قانون سر ریڈ کلف کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ۔ سریڈ کلف نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دباو میں آ کر غیر منصفانہ تقسیم کی ۔مسلم اکثریت کے بعض تسلیم شدہ علاقوں کو ایک سازش کے تحت ہندوستان میں شامل کر دیا گیا ۔ آبادی کے مطابق طے پانے والے نقشے اور اس پر کھنچی گئی لکیر کو بدل دیا گیا ۔ اس امر کا اعتراف ریڈ کلف کے پرائیویٹ سیکرٹری نے کیا اور اب تو یہ ایک تاریخی حقیقت مانی جا چکی ہے کہ ناانصافی کرتے ہوئے بعض اہم علاقوں سے پاکستان کو محروم کر دیا گیا ۔ ضلع گورداسپور کی تین تحصیلیں گورداسپور ، پٹھانکوٹ اور بٹالہ کے علاوہ ضلع فیروز پور کی تحصیل زیرہ اور بعض دوسرے علاقے ہندوستان کو سونپ دیئے گئے ۔ گورداسپور کے علاقوں کو ہندوستان میں شامل کرنے سے ریاست جموں وکشمیر تک کا راستہ ہندوستان کو دے دیا گیا ۔
سر ریڈ کلف کے ایوارڈ سے نہ صرف مسلمانوں کو ان کے علاقوں اور حقوق سے محروم کیا گیا بلکہ دونوں قوموں کے درمیان مستقل مخالفت کا بیج بو دیا گیا ۔ آج مسلہ کشمیر موجود ہے اور دونوں ملک اب تک 1948 ، 1965 ء اور 1971 ء کی تین بڑی جنگیں ہو چکے ہیں ۔
2۔انتظامی مشکلات
پاکستان کے علاقوں میں سرکاری ملازمتوں پر فائز غیرمسلم بڑی تعداد میں ہندوستان چلے گئے ۔ دفاتر خالی ہو گئے ۔ دفاتر میں فرنیچر، سٹیشنری ،ٹائپ رائٹروں وغیرہ کی کمی تھی ۔ اکثر دفاتر نے کھلے آسمان تلے کام کا آغاز کیا ۔ ہندو ہندوستان جاتے ہوئے دفتری ریکارڈ تباہ کر گئے ۔ اس کی وجہ سے دفاتر میں کام کرنے میں بڑی دشواریاں پیش آئیں۔
3۔مہاجرین کی آمد
قیام پاکستان کے بعد بھارت میں رہنے والے مسلمانوں نے اپنے نئے وطن میں آنے کا فیصلہ کیا ۔لاکھوں خاندان اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ جو مسلمان بھارت میں رہنا چاہتے تھے انہیں ہندوؤں اور سکھوں نے قتل و غارت کا نشانہ بنایا ۔ بچے کھچے خاندانوں کو مجبورا پاکستان کی طرف ہجرت کرنا پڑی ۔ دوران ہجرت لاکھوں افراد حملوں میں شہید ہوئے ۔ یہ بے گھر لٹے پٹے پریشان حال مسلمان پاکستان آئے تو انھیں عارضی کیمپوں میں رکھا گیا ۔ ان کی خوراک، رہائش، ادویات اور دیگر ضروریات کی فراہمی کے لیے حکومت پاکستان نے تیزی سے منصوبہ بندی کی ۔ مقامی عوام نے اپنے مسلمان بھائیوں کو خوش آمدید کہا ۔ حکومت اور عوام کی مشترکہ کوششوں سے مہاجرین کی ضروریات پوری کی گئیں ۔ تعداد اتنی زیادہ تھی کے کیمپوں میں گنجائش نہ رہی ۔ لوگوں کو جہاں سر چھپانے کی جگہ ملتی ڈیرے ڈال دیتے ۔ مہاجرین کی بحالی ایک بہت بڑا چیلنج تھا ۔ دنیا میں ہجرت کی اتنی بڑی تعداد کا واقع کہیں رونما نہیں ہوا تھا ۔ ہجرت کے دوران ایسے واقعات بھی ہوئے کہ مسلمانوں کی قتل و غارت میں بھارتی فوج ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ شامل تھی ۔
4۔اثاثوں کی تقسیم
برصغیر کی تقسیم کے بعد اثاثوں کی پاکستان اور بھارت میں متناسب انصاف کا تقاضا تھا لیکن یہاں بھی بھارتی حکمرانوں نے نا انصافی سے کام لیا ۔ وہ بہانے بہانے سے پاکستان کو اس کا حصہ دینے سے گریز کرتے رہے ۔ وہ پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے ہر ممکن حربے استعمال کر رہے تھے ۔ انھوں نے پاکستان کے حصے کے اثاثے روک لیے ۔متحدہ برصغیر کے ریزرو بنک میں تقسیم کے وقت چار بلین روپے جمع تھے ۔ یہ رقم دونوں ممالک میں بانٹی جانی تھی ۔ تناسب کے لحاظ سے پاکستان کا حصہ 750 ملین روپے تھا یہ حصہ دینے پر بھارت آمادہ نہیں تھا ۔ پاکستان کی طرف سے مسلسل مطالبے اور بین الاقوامی سطح پراپنی ساکھ قائم رکھنے کی مجبوری کی وجہ سے بھارت نے ایک قسط میں 200 ملین روپے دیے ۔ باقی رقم کو روک لیا گیا ۔ بھارتی وزیر پٹیل نے پاکستان کو کہا کہ وہ کشمیر پر بھارت کا حق تسلیم کر لے تو ساری رقم ادا کر دی جائے گی ۔ پاکستان نے سودے بازی نہ کی ۔ اور گاندھی کو بین الاقوامی برادری میں شرمندہ ہونے کا خوف تھا ۔ اس نے ساری رقم پاکستان کو ادا کرنے کو کہا ۔ مجور 500 ملین روپے کی ایک قسط پاکستان کے حوالے کی گئی ۔ بقایا 50 ملین روپے ابھی تک بھارت کے ذمے واجب الادا ہیں ۔ اس حوالے سے نومبر 1947 ء میں دہلی میں دونوں ممالک کے نمائندوں کی میٹنگ بھی ہوئی جس میں معاہدہ ہوا اور دونوں ممالک نے معاہدے کی توثیق بھی کر دی لیکن معاہدے پرعمل در آمد ابھی تک نہیں ہو سکا ۔
5۔فوج کی تقسیم
یہ ضروری تھا کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد فوری اثاثوں کو دونوں ممالک میں تناسب کے مطابق تقسیم کر دیا جاتا لیکن اس معاملے میں بھی انصاف سے کام نہ لیا گیا ۔ بھارت پاکستان کو کمزور رکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ بھارت کا حصہ بننے پر مجبور ہو جائے ۔تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان کا کمانڈر چاہتا تھا کہ افواج کو بانٹا نہ جائے اور انھیں ایک ہی کمانڈ کے تحت رکھا جائے مسلم لیگ نے اس کے موقف کو تسلیم نہ کیا اور اصرار کیا کہ قومی وسائل اور اثاثے دونوں ممالک میں بانٹ دیے جائیں ۔حکومت برطانیہ کو یہ مطالبہ ماننا پڑا کہ بھارت اور پاکستان میں تمام فوجی نے 64 فیصد اور 36 فیصد کے تناسب سے تقسیم کر دیئے جائیں ۔ متحدہ بھارت میں 16 آرڈینس فیکٹریاں کام کر رہی تھیں اور ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں تھی جسے پاکستان کو ملنے والے علاقوں میں بنایا گیا ہو ۔ بھارتی کابینہ آرڈینس فیکٹری تو کیا اس کی مشینری کا کوئی پرزہ بھی پاکستان منتقل کرنے پر آماد نہیں تھی ۔ کافی تکرار کے بعد طے پایا کہ آرڈینس فیکٹریوں کے حوالے سے پاکستان کو 60 ملین روپے دیئے جائیں گے تا کہ وہ اپنی آرڈنینس فیکٹری قائم کر سکے ۔ عام فوجی اثاثوں کی تقسیم کا جو فارمولا بھی بنایا گیا حکومت ہند نے اسے مسترد کر دیا ۔ تنگ آ کر انگریز کمانڈر انچیف نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ۔ جس سے حالات مزید پیچیدہ ہو گئے ۔ یوں پاکستان کو اپنا جائز حصہ لینے سے محروم کر دیا گیا ۔ جہاں تک افواج کا تعلق تھا ہر فوجی کو اختیار دیا گیا کہ وہ دونوں میں سے جس ملک کی فوج کا حصہ بنا چاہے بن جائے ۔ ظاہر ہے کہ مسلمان فوجیوں نے پاکستان سے روانگی کا اظہار کیا ۔
6۔دریائی پانی کا مسلہ
تقسیم برصغیر نے دریاؤں کے قدرتی بہاؤ پر اثر ڈالا ۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق دریا کا قدرتی راستہ برقرار رکھا جاتا ہے اور جن دو یا زیادہ مالک سے دریا گزرتا ہے وہ اس کے پانی سے مستفید ہوتے ہیں ۔ کوئی ملک دریا کا رخ بدل کر کسی دوسرے ملک کو آبی وسیلہ سے محروم نہیں کرسکتا ۔ برصغیر میں اس حوالے سے بھی بحران پیدا ہوا ۔ پنجاب اور سندھ کو دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا جہلم ، چناب ،راوی ستلج اور بیاس سیراب کرتے آرہے ہیں ۔ پنجاب دو حصوں میں منقسم ہوا تو دریاؤں کی بھی تقسیم عمل میں آ گئی ۔ راوی ، ستلج اور بیاس بھارت کی سرزمین سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں ۔ بھارت سے انصاف کی توقع نہیں تھی ۔ اس نے اپریل 1948 میں مغربی پنجاب کو آنے والے پانی کا راستہ روک لیا ۔ یہ قدم پنجاب اور سندھ کی معیشت کو تباہ کرنے کے مترادف تھا کیونکہ ان علاقوں میں فصلوں کی آبیاری کا یقینی زریعہ دریا ہی ہیں ۔ بارشیں بہت کم ہوتی ہیں ۔ بھارت کی طرف سے پانی کی بندش سوکھے اور قحط کا باعث بن سکتی تھی ۔ پاکستان کی زراعت کا دارو مدار زیادہ تر دریائی پانی پر ہے ۔ ایک بڑی زیادتی ریڈ کلف کی سربراہی میں بننے والے حد بندی کمیشن نے کی ۔ اس نے سرحد کا تعین کرتے وقت اکثر ہیڈ ورکس مسلم اکثریتی علاقوں میں ہونے کے باوجود بھارت کے حوالے کر دیئے ۔ یہ سازش پاکستانی زراعت اور معیشت کی تباہی کا سبب بن سکتی تھی ۔ بھارت نے دریائے ستلج ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا تو پاکستان نے سخت احتجاج کیا ۔ اگر بند بنتا تو پانی اور قیحط کا سامنا کرنا پڑتا ۔ اس لیے عالمی برادری کو اپنے مسئلہ سے آگاہ کیا گیا ۔
عالمی بینک نے صورت احوال کا جائزہ لے کر پاکستان کی مد کا اعلان کیا ۔ کثیر رقم منتقل کی گئیں اور کافی غور وفکر کے بعد عالمی بینک کی مدد سے دونوں ممالک میں ایک معاہدہ سندھ طاس طے پا گیا ۔ تین در یاؤں ( راوی اور بیاس ) پر بھارت کا حق مان لیا گیا اور دوسرے تین دریا ( سندھ ،جہلم اور چناب ) پاکستان کو سونپ دیے گئے ۔منگلا اور تربیلا ڈیم اور سات لنک کینال بنائے جانے کا منصوبہ بنا ۔ سندھ طاس منصوبہ بندی کی بدولت دریائی پانی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو گیا اور حکومت پاکستان کی فکر دور ہوئی ۔
ریاستوں کا تنازع
برصغیر کی دیسی ریاستوں کے حکمران کو اب یاراجے داخلی طور پر خود مختار تھے ۔ ان پر کنٹرول برطانوی حکومت کو حاصل تھا ۔ ریاستوں میں برصغیر کی کل آبادی کا ایک چوتھائی رہائش پذیر تھا اور ایک تہائی علاقے پر مشتمل تھیں ۔ آزادی کی منزل قریب آئی تو ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچا جانے لگا کابینہ مشن پلان کے حوالے سے ریاستوں کے حکمرانوں کوکہا گیا کہ مستقبل میں اپنی حیثیت اور مفادات کے تحفظ کے لیے دستور سازی کے عمل میں شریک ہوں ۔ حکمرانوں کو کابینہ مشن پلان نے تلقین کی کے فیصلہ کرتے وقت اپنے عوام کی پسند اور مذہبی رشتوں کا دھیان رکھیں ۔
حکومت برطانیہ نے 20 فروری 1947 کو انڈیا اور انڈین ریاستوں پر اپنا کنٹرول اٹھا لینے کا علان کیا ۔ اسی اعلان کے تحت ریاستوں نے ہندوستان یا پاکستان سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔ صرف درج ذیلی ریاستوں کی طرف سے کوئی قدم فوری طور پر نہ اٹھایا گیا ۔ ان ریاستوں پر بھارتی افواج نے فوج کشی کر کے قبضہ کرلیا ۔
i) ریاست حیدر آباد دکن
اس ریاست کا حکمران نظام حیدر آباد دکن مسلمان تھا جب عوام کی اکثریت کا تعلق ہندوازم سے تھا ۔نظام عوام میں ہر دلعزیز تھا ۔ ریاست کی معاشی حالت بہت اچھی تھی ۔ نظام مسلمان ہونے کے ناطے چاہتا تھا کہ پاکستان سے الحاق کرے لیکن بھارتی حکومت نے سخت دباؤ ڈالا ۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھارت کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت اس نظام کو مجبور کیا وہ اپنی ریاست کی جغرافیائی حیثیت کو دیکھتے ہوئے بھارت سے الحاق کرے ۔ نظام اس پر رضامند نہ ہوا ۔ وہ آزاد اور خودمختار ریاست کے قیام کے بارے میں سوچنے لگا ۔ وہ بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے کو آمادہ نہیں تھا ۔ نظام نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک درخواست بھارتی رویہ کے حوالے سے بھجی ۔ ابھی معاملہ زیر غور ہی تھا کہ ستمبر 1948 کو بھارتی افواج نے دکن پر حملہ کر دیا ۔ 17 ستمبر 1948 کو نظام کی افواج نے ہتھیار ڈال دیئے اور بھارت نے ریاست پرقبضہ کرلیا ۔
ii) جوناگڑھ
جونا گڑھ کا تو اب مسلمان تھا لیکن آبادی کی اکثریت غیر مسلم تھی ۔یہ ریاست کراچی سے 480 کلومیٹر دوتھی ۔آبادی سات لاکھ کے لگ بھگ تھی ۔نواب نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا بھارت کے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن نے الحاق کو تسلیم نہ کرنے اور جونا گڑھ کو بھارت کا ایک حصہ ثابت کرنے کے حق میں دلائل دیئے ۔ پاکستان نے نواب جونا گڑھ کے الحاق کے اعلان کو قبول کرتے ہوئے ایک خط جاری کر دیا جس کی نقل گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کوبھی بھیجی گئی ۔ بھارت نے پاکستان کی توثیق کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا ۔ جونا گڑھ کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا اور خوراک و دیگر ضروریات ریاست کے اندر جانے کی اجازت نہ دی گئی ۔ بھارتی افواج نے جونا گڑھ میں داخل ہو کر اس کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا ۔ نواب نے بصورت دیکھی تو ہجرت کر کے پاکستان آ گیا تو پاکستان نے ایک درخواست اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھجی لیکن کوئی ردعمل نہ ہوا ۔ پاکستان بھی اقوام متحدہ میں جوناگڑھ کے تنازعہ کو لے گیا لیکن یہ معاملہ ابھی تک اقوام متحدہ کے پاس بغیر کسی فیصلے کے پڑا ہے ۔
iii) مناوادر
جونا گڑھ کے قریب ایک اور ریاست مناوادر کے مسلمان حکمران نے بھی پاکستان سے الحاق کرنے کا اعلان کیا ۔ جونا گڑھ کے ساتھ ساتھ بھارتی افواج نے مناوادر پر بھی حملہ کیا اور اسے زبردستی اپنے قبضہ میں لے لیا ۔ مناوادر اور جونا گڑھ کی ریاستوں پر فوج کشی کے احکامات پر گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن نے دستخط کیے تھے ۔
iv) ریاست جموں وکشمیر
ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے شمال میں برصغیر کی ریاستوں میں علاقے کے اعتبار سے سب سے بڑی ریاست تھی ۔ اس ریاست کی سرحدیں چین ، تبت افغانستان اور پاکستان سے ملتی ہیں ۔ 1941 ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی چالیس لاکھ کے قریب تھی ۔ آبادی کا بہت بڑا حصہ مسلمانوں پرمشتمل تھا ۔ برطانوی حکومت نے اس ریاست کو ایک ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے پاس صرف 75 لاکھ میں فروخت کر دیا تھا ۔ ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ اور اس کے جانشینوں نے اپنی مسلم رعایا پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے ۔ معمولی جرائم کی پاداش میں مسلمانوں کو کڑی سزائیں دی جاتیں ۔ تنگ آ کر 1930 میں کشمیری مسلمانوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف آزادی کی تحریک شروع کر دی ۔ برطانوی حکومت کی مدد کے ساتھ راجہ نے عوامی تحر یک کوسختی سے کچل دیا ۔
ریاست جموں وکشمیر جغرافیائی ثقافت اور مذہبی اعتبار سے پاکستان سے بہت قریب رہی ۔ پاکستان کو سیراب کرنے والے اکثر در یا کشمیر سے نکلتے ہیں ۔ 1947 ء میں کشمیری عوام چاہتے تھے کہ راجہ پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کرے لیکن راجہ اس پر آمادہ نہ ہوا ۔ عوام نے محسوس کیا کہ راجہ ان کے جذبوں کے مطابق الحاق نہیں کرنا چاہا تو انھوں نے ایک بڑی تحریک شروع کر دی ۔ راجہ نے سختی سے کام لیا اور لاکھوں افراد ترک وطن پر مجبور ہوئے ۔ سوا دو لاکھ سے زیادہ مسلمان شہید کر دیئے گئے ۔ تحریک دبائی نہ جا سکی اور راجہ نے بھارتی حکومت سے مدد کی درخواست کی ۔ بھارت نے اپنی افواج ریاست میں اتار دیں اور ساتھ ہی دباؤ ڈالا کہ راجہ بھارت سے ریاست کے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دے ۔ راجہ ایسا کرنے سے گریز کرتا رہا ۔ بھارتی حکومت نے ایک جعلی دستاویز تیار کی اور اعلان کر دیا کہ راجہ نے ریاست کو بھارت میں شامل کرنے کی درخواست کی ہے جسے بھارتی حکومت نے مان لیا ہے ۔
کشمیری عوام راجہ کے خلاف تحریک چلا رہے تھے ۔ اب انھوں نے باقاعدہ ہتھیار اٹھا لیے۔سابق کشمیری فوجی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قیادت کرنے لگے ۔ رضاکاروں کے جتھے آزادی کے لیے بھارتی افواج اور راجہ کے دستوں کے خلاف جہاد میں شامل ہوئے تو دیکھتے ہی دیکھتے بہت سا علاقہ راجہ کے قبضے سے نکل گیا ۔ حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کی پوری پوری اخلاقی اور مالی امداد تحریک آزادی کشمیر کو حاصل ہوئی تو آزادی کے لیے لڑنے والوں کا پلہ بھاری ہونے لگا ۔ بھارت نے حالات کا رخ دیکھا تو اقوام متحده کا دروازہ جا کھٹکھٹایا ۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دوقراردادیں منظور ہیں اور دونوں ممالک کو جنگ بند کرنے کی تلقین کی ۔ حد بندی کیے جانے کا فیصلہ بھی کیا ۔ اقوام متحدہ نے واضح طور پر کہ دیا کہ کشمیری عوام کی رائے معلوم کی جائے گی ۔ ان کی مرضی کے مطابق کشمیر کا الحاق بھارت یا پاکستان سے ہو جائے گا ۔ پاکستان اور کشمیری مجاہدین نے اپنی برتر فوجی پوزیشن کے باوجود قراردادوں کا احترام کرتے ہوئے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کر دیی ۔ استصواب رائے کرانے کا اعلان تو اقوام متحدہ نے کر دیا لیکن مسئلہ کو . حل کرنے کے لیے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ اور 1971 میں دو جنگیں ہوئیں لیکن کشمیر کا مسئل حل نہیں ہوسکا ۔ پچھلے پندرہ سالوں سے کشمیری مجاہدین ہتھیار اٹھائے آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ مسلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے لیکن وہ کوئی موثر قدم اٹھانے سے قاصر ہے ۔