زلزلہ، کیوں اور کیسے آتا ہے ؟
ہمارے ملک میں 2005 میں آنے والا زلزلہ بہت ہی خوفناک تھا جسے کوئی نہیں بھول سکتا ۔جس میں ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے ۔اس سے پہلے 1935 میں کوئٹہ میں بھی رات کے وقت زلزلہ آیا جس میں شہر کی آدھی آبادی موت کے آغوش میں چلی گی ۔ان کے علاوہ چھوٹے زلزلہ ہمارے ہاں اکثر آتے رہتے ہیں ۔ زلزلہ کے بارے میں سن کر لوگوں کے دلوں میں خوف اور خدشات پیدا ہوجاتے ہیں ۔زلزلہ آتے کیوں ہیں اسے ہر کوئی جاننا چاہتا ہے۔کیا یہ ممکن ہے کہ زلزلہ آنے سے پہلے اس کی پیش گوئی کی جاسکے ۔زلزلے آنے کی سائنسی وجوہات کے بارے میں آج حقائق بیان کر رہا ہوں ۔
ہماری زمین ھمیشہ حرکت کرتی رہتی ہے ۔زمین اپنے محور کے گرد ایک دن میں اپنا چکر مکمل کرتی ہے ۔زمین سورج کے گرد بھی گھومتی ہے ۔زمین سورج کے گرد اپنا چکر ایک سال میں یعنی تین سو پیسنٹھ سال میں مکمل کرتی ہے ۔اور اس کی وجہ سے زمین پر سردی ، گرمی ، بہار اور خزاں جیسے موسم آتے ہیں ۔زمین کی ان دونوں حرکات کے علاوہ کائنات میں تیسری حرکت بھی ہو رہی جوتی ہے مطلب اس کرے کی اوپری چٹانی پپڑی اندرونی مادّے پر پھیلتا رہتا ہے۔جس پر ہم رہتے ہیں وہ چٹانی پیڑی ہے جس کے سات ٹکڑوں ہیں . اس کا ہر ٹکڑا ایک چٹانی پلیٹ ہے۔ جب یہ پلیٹس آپس ٹکراتی ہیں چٹانوں کی دراڑوں پر جو فالٹ پیدا ہوتے ہیں اور کوئی حرکت ہوتی ہے تو اسے زلزلہ کہتے ہیں۔
اس سے صاف اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ان ممالک میں زلزلوں آتے ہیں جو ممالک پلیٹوں کی سرحدوں پر واقع ہیں۔ پاکستان جس پلیٹ پر واقع ہے اسے انڈین پلیٹ کہتے ہیں جو پاکستان کی شمالی سرحد پر واقع ہے انڈین پلیٹ کو یوریشین پلیٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان دونوں پلیٹوں کے ٹکرانے کی وجہ سے ہی سلسلہ کوہ ہمالیہ وجود میں آیا۔ اور آج بھی انڈین پلیٹ آگے بڑھتی ہے اور یوریشین پلیٹ کے نیچے آجاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اوسطاً ایک سال میں ڈیڑھ انچ ہانڈین پلیٹ شمال کی جانب بڑھتی ہے۔ لیکن یہ صرف ایک اوسط ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پچاس ، ستر یا پھر سو سال تک پلیٹ پر کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں ہوتی صرف اور صرف اس پر دبائو بڑھتا رہتا ہے۔ لیکن ایک وقت آتا ہے جب دبائو ایک خاص حد سے آگے بڑھ جاتا ہے تو پھر ایک جھٹکے سے چٹانیں کئی فٹ تک آگے چلی جاتی ہیں اور اچانک جمع ہونے والی توانائی خارج ہوجاتی ہے۔ توانائی کا اخراج لہروں کی صورت میں ہوتا ہے اس کو سیسمک ویوز کہتے ہیں اور آبادیوں اور عمارتوں کو تہہ و بالا کردیتی ہیں۔ زلزلے کی وجہ سے ہونے والوں جھٹکوں سے کوئی نہیں مرتا۔ یہ تو عمارتیں جو زلزلے کی وجہ سے گر جاتی ہیں اور ان کے ملبے میں لوگ دب کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔
زلزلے صرف پاکستان میں آنے کی علاوہ ایران اور ترکی میں بھی بڑی شدت سے آئے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ، ترکی اور ایران تینوں ممالک زلزلے کی ایک ہی پٹی پر ہیں جو انڈین اور یوریشین پلیٹ کے ٹکرائو کی وجہ سے بنی ہے۔ ٹھیک اسی طرح چین اور جاپان ایک دوسری پٹی پر واقع ہیں اور جنوبی امریکا کا ملک چلی اور شمالی امریکا کا کیلی فورنیا اور الاسکا تیسری پٹی پر واقع ہیں۔ یہ تمام وہ جگہیں ہیں جہاں پر دو پلٹیں ٹکرا رہی ہیں اور ان کے کناروں پر واقع فالٹ کے حرکت میں آنے کی وجہ سے بہت خطرناک اور جان لیوا زلزلے آتے ہوتے ہیں۔
ایک اور سوال ذہن میں آتا ہے کہ آخر ان زلزلوں سے بچا کس طرح جاسکتا ہے ۔ بدقسمتی سے اس وقت ہم زلزلے کو آنے سے روک نہیں سکتے لیکن اس سے باعث پہنچنے والے جانی و مالی نقصان کو بہت حد تک کم کرسکتے ہیں۔ زلزلوں سے بچنے کا پہلا عمل یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے ملک کے کون سے حصے کو زلزلے سے کتنا نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
کشمیر اور سوات ہماری وہ آبادیاں ہیں جو انڈین پلیٹ کی آخری شمالی سرحد پر واقع ہیں یہاں پر زلزلے تواتر سے آتے ہیں جو شدید نوعیت کے بھی ہوسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آئندہ بھی آئیں۔ تو یہ ایک خطرناک زون ہے اسے زون فور کہتے ہیں۔ کوئٹہ، چمن اور مستونگ انڈین پلیٹ کی مغربی سرحد پر ہیں اس لئے یہ بھی ہائی رسک زون ہے۔ لیکن پاکستان کے بڑے حصوں میں درمیانی درجے کے زلزلے کے خدشات بھی موجود ہیں اور شمالی پنجاب، اپر سندھ اور خاران کو زون ٹو شامل کیا گیا ہے ۔ تھر اور چولستان کے ریگستان میں زلزلے کا خطرہ بہت کم ہے اور ان زون ون کہتے ہیں ۔
زلزلے سے بچاو کا دوسرا قدم یہ ہے کہ رسک زون میں شامل شہروں میں انجینئرز عمارتوں کے ایسے ڈیزائن تیار کریں کہ وہ عمارت متوقع زلزلے کے درجہ میں خود کو گرائے بغیر سہارا لے سکے۔ماہرین ارضیات اس عمل کو بلڈنگ کوڈ کی تعمیل کہتے ہیں۔ کوئٹہ کی عمارتوں کا بلڈنگ کوڈ بڑا سخت ہونا چاہیے کیوں کہ یہ زون فور کا شہر ہے۔ زون تھری کے شہروں میں اسلام آباد، راولپنڈی کا بلڈنگ کوڈ اس سے قدرے مختلف ہوگا اور کراچی کا بلڈنگ کوڈ اس سے کم ہو گا کیوں کہ یہ زون ٹو میں شامل ہے۔
اسی طرح اب اگر عمارتیں اپنے طے شدہ کوڈ کے مطابق بنائی جائیں یعنی منزلوں کی تعداد محدود ہو ستونوں میں سریے مقررہ تعداد میں ڈالے جایں اور سریوں کو ہنرمندی اور اس احتیاط کے ساتھ باندھا جائے جو بلڈنگ کوڈ کے مطابق ہو تو پھر یہ عمارتیں زلزلہ پروف نہ بھی ہوں تو بھی زلزلے کا مقابلہ ضرور پائیں گی۔ چاہے دراڑیں پڑ جائیں، پلاسٹر اکھڑ جائے لیکن چھتیں نہیں گریں گی اور جانوں کا نقصان کم سے کم ہوگا ۔
ان سب بچاو کے بعد جو سب سے اہم عمل پیش گوئی کا ہے ۔ماہرین ارضیات نے اس بارے میں بہت تحقیق کی ہے۔ پلیٹ کے ان فالٹ کے نقشے بنائے گئے ہیں جن پر کئی دفعہ زلزلے آچکے ہیں۔ ان کی مسلسل کئی بار مانیٹرنگ کی گئی ہے۔ ان میں ہونے والی حرکت اور دبائو کے مطالعے سے پیش گوئی کرپانا ممکن ہے کہ اس فالٹ پر کب ایسی حرکت ہوگی جو بڑے نقصان کا باعث بنے گی لیکن پیش گوئی کتنی بھی کی جائے اس میں غلطی کا امکان تو رہتا ہے۔ اب اگر کسی بڑے صنعتی اور آبادی والے شہر کے بارے میں اعلان کردیا جائے کہ یہاں اگلے سال فلاں وقت اس شدت کا زلزلہ آنے والا ہے۔
تو اس وجہ سے اس شہر کے تمام ترقیاتی منصوبے بند ہوجائیں گے اور کچھ نہ کچھ آبادی کا انخلا بھی یہاں سے ہوجائے گا۔ تو اگر پھر زلزلہ نہ بھی آئے تو اس سے نقصان تو ہوجائے گا۔ اس لئے ماہرین ارضیات اس بات پر متفق ہیں کہ پیش گوئی کے بجائے پوری توجہ زلزلے سے آگاہی اور اس سے بچائو کی تیاری پر لگائی جاۓ ۔
سب سے پہلے ضروری ہے کے شہریوں کو یہ پتا ہو کہ ان کا شہر کس رسک زون میں واقع ہے۔ پھر وہ اپنی تعمیرات کے دوران انجینئرز سے مطالبہ کریں کہ تعمیر بلڈنگ کوڈ کی ہدایات کے مطابق کریں ۔
زلزلے سے آگاہی کا تیسرا عمل یہ ہے کہ شہری آبادی کو معلوم ہو کہ زلزلے آنے کی صورت میں انہیں کیا کرنا ہے۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ سراسیمہ نہ رہا جائے۔
زلزلے انسانی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ بہت شہروں نے اس کا مقابلہ کیا ۔ آج اس دور میں اسٹیل کا استعمال زیادہ ہو ہو گیا جس بلڈنگ میں اسٹیل کا استعمال زیادہ ہوگا وہ اتنی ہی مظبوط اور لچکدار ہوگی ۔ اسٹیل سے بنائی جانے والی عمارت بھی زلزلے آنے پر پنڈولم کی طرح جھولے گی مگر زلزے کے جانے کے بعد واپس اپنے مقام پر اپنی بنیادوں پر کھڑی ہوگی۔زلزلے سے بچائو کا سب سے موثر ہتھیار اس سے آگہی اور سنجیدگی سے بلڈنگ کوڈ کی تعمیل ہے۔