نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سرائیکی اور بلوچی زبان کا تعارف



بلوچی زبان

بلوچی زبان پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کثرت سے بولی جانے والی زبان ہے۔بلوچی زبان فارسی زبان سے زیادہ قدیم زبان ہے۔یہ ایک آزاد اور قائم بالذات زبان ہے۔عرب سیاحوں اور ماہرین لسانیات کے مطابق قدیم باختریہ زبان ژند سے مماثلت رکھتی ہے ۔

بلوچی زبان کا خاندان

اس کا آریائی زبانوں کی ایرانی آریائی شاخ سے تعلق ہے

روسی زبان کا لب و لہجہ

علاقائی لحاظ سے بلوچی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

  • مشرقی بلوچی
  • مغربی بلوچی
  • رخشانی

ان میں سے پہلے دو حصے زیادہ قابل ذکر ہیں جو یہاں پیش کئے جارہے ہیں

مشرقی بلوچی

بلوچستان کے مشرقی علاقوں کوئٹہ، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان اور سندھ کے مغربی ساحل پر آباد مزارعین وغیرہ میں بولی جاتی ہے ان کی زبانوں میں پنجابی ،سرائیکی اور سندھی زبان کا اثر نمایاں ملتا ہے

مغربی بلوچی

مغربی بلوچی میں فارسی اور پشتو زبان کا اثر پایا جاتا ہے ۔یہ صرف بولنے اور سمجھنے تک محدود ہے۔مغربی بلوچی مکران ،قلات،جھالاوں ، لسبیلہ اور ایران سے ملحقہ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ افغانستان ،ایران اور روس کے چند علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے ۔

بلوچی ادب کا تاریخی جائزہ

پندرہویں صدی عیسوی سے قبل کا کوئی بھی بلوچی شعر نہیں ملتا ۔بلوچی اشعار رند خاندان کے
عہد 1488 تا 1555 سے ملنا شروع ہوتے ہیں۔ یہ دور اس لیے بھی اہم قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس کے دوران میں کئی رومان ظہور پذیر ہوئے ۔مثلا حانی اور شہ مرید بیبرگ اور گناناز، شہدا اور نازکی رومانی داستانیں اسی عہد میں موجود آئی اور ان ہی داستانوں کی بدولت بلوچی شاعری کے مزاج میں زمیت کے ساتھ رومانیت کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے جو بعد میں اسی شاعری کا مستقبل حصہ بن گیا
خوانین قلات کے عہد 1650 تا 1890 میں زرمیہ اور عشقیہ شاعری کے ساتھ مذہبی شاعری کی بنیاد بھی پڑی۔ اس عہد کے شعرا میں عثمان کلمتی ،حمل رند،شہ یار ،جام درک ، حانی اور مانی دونوں شعرات غیرہ کے نام ملتے ہیں۔ جام درک اس دور کے باکمال شاعر ہیں اور اس کو بلوچی زبان کا ملک الشعر کہا جاتا ہے ۔
انگریزی عہد 1830 تا 1947 میں شعری نظریات کے پیش نظر بلوچ شعرا کے دو مکاتب فکر وجود میں آئے۔ مشرقی مکتب فکر اور مغربی مکتب فکر ۔ مشرقی مکتب پر سندھی اور سرائیکی شاعری کا اثر ہے اور مغربی مکاتب فکر کے شعرا پر فارسی زبان کا اثر ہے۔ مشرقی مکتب فکر کے شعرا میں لشکر خان ،جسکانی، مست طوق علی پنجو بنگالی ، غلام محمد بالا چانی اور چکھ بزدار کے نام قابل ذکر ہیں اور مغربی مکاتب فکر کے شہر میں ملا فضل، عزت بیگ پجگوری اور سید نور شاہ کا نام قابل ذکر ہے
قیام پاکستان کے بعد بلوچی نثر نے تیزی سے ترقی کی ہے ۔مذہبی کتابوں کے علاوہ تاریخی ،ادبی ،ثقافتی اور سیاسی موضوعات پر کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ناول، افسانہ، ڈرامہ اور مضامین لکھے گئے۔ میر گل خان نصیر، محمد حسین عنقا ، قاضی عبدالرحیم صابر اور ظہور شاہ سید نے بلوچی نثر کی داغ بیل ڈالی۔ موجودہ شعرا میں آزاد جمال ،عطا شاد ، مرادساحر ،عبدالرحیم صابر ،ظہور شاہ ہاشمی، دانش اور بافل دشتیاری کے نام نمایاں ہیں

ادبی زبان و ادب کے رسائل اور ادارے

بلوچی زبان اور ادب کی ترقی میں جن رسائل و جرائد نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ان میں پہلا نام اومان کا ہے جس کا اجرا 1952 میں کراچی سے مولانا خیر محمد ندوی نے کیا۔ اس کے علاوہ بلوچی اولس، بولان، بلوچستان جدید اور نواے وطن کی خدمات قابل ذکر ہیں ۔علم و تحقیق کی داروں میں بلوچی اکیڈمی 1962 ،میں ملا فضل اللہ اکیڈمی، سید ظہور شاہ کیڈمی آزاد جمال دینی اکیڈمی اور بلوچ ادبی سوسائٹی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں ۔کوئٹہ ٹیلی ویژن سٹیشن کے قیام سے بلوچی زبان کو کافی فروغ ملا ہے ۔

سرائیکی زبان

سرائیکی زبان سندھ اور پنجاب سے ملحق درمیانی علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس زبان کو ملتانی بھی کہتے ہیں ۔اس زبان کا وطن سندھ اور جنوبی پنجاب اور سندھ کا علاقہ ہے

سرائیکی زبان کا خاندان

انگریز مورخوں کی تحقیق کے مطابق سرائیکی شور سینی پراکرت سے نکلی ہے۔ پنجابی لسانیات کے ماہر اسے پنجابی زبان سمجھتے ہیں جب کہ سرائیکی بولنے والے اسے پنجابی سے الگ درجہ دیتے ہیں۔ یہ بولی بہاولپور،ملتان ،ڈیرہ غازی خان ،ڈیرہ اسماعیل خان، میانوالی اور سندھ کے شاہ پور جیکب آباد کے علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے

سرائیکی زبان اور اس کا لہجہ

سرائیکی زبان جہاں بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں انہی علاقوں کے ناموں سے پکاری و پہچانی جاتی ہے اس کی وجہ سے اس زبان کو نو لہجوں میں تقسیم کیا۔ گیا ہے ۔

  1. سرائیکی
  2. بہاولپوری
  3. ملتانی
  4. اچی
  5. ڈیرہ والی
  6. مظفرگڑھی
  7. ہند کو
  8. جھنگوی
  9. شاہ پوری

1۔سرائیکی

صوبہ سندھ کے شمالی اور مغربی علاقوں میں بولی جانے والی زبان کو سرائیکی کہتے ہیں ۔

2۔بہاولپوری

بہاولپور اور اس گردنواح میں بولی جانے والی زبان کا نام ببہاولپکری ہے ۔

3۔ملتانی

ملتان اور اس کے گرد نواح میں زبان کو ملتانی کہا جاتا ہے ۔

4۔اچی

بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے نواح میں اچ کا علاقہ ہے یہاں کی زبان کو اچی کہتے ہیں ۔

5۔ڈیرہ والی

ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں جو بولی جاتی ہے اسے ڈیرہ والی بولی کہتے ہیں ۔

6۔مظفر گڑھی

ضلع مظفرگڑھ اور علاقوں میں بولی جانے والی زبان کو مظفرگڑھی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

7۔ہندکو

پشاور کے علاقوں میں بولے والی بولی جانے والی زبان کو ہند کو کہتے ہیں ۔

8۔جھنگوی

یہ زبان پنجاب کے ضلع جھنگ اور میانوالی کے علاقوں میں بولی جاتی ہے ۔

9۔شاہ پوری

سندھ کے ضلع شاہ پور کے علاقوں میں بولی والی زبان کو شاہ پوری کہتے ہیں ۔

مختصر یہ کہ پنجابی اور سرائیکی کا آپس میں لب و لہجہ ملتا جلتا ہے ۔سرائیکی والا پنجابی اور پنجابی بولنے والا سرائیکی زبان سمجھ لیتا ہے۔ مگر ماہر لسانیات سرائیکی کو پنجابی کے بجائے سندھی زبان کی شاخ کہتے ہیں اور الگ زبان قرار دیتے ہیں ۔

سرائیکی ادب

سرائیکی ادب کو ترقی دینے والوں میں صوفی بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید، بابا فریدالدین گنج شکر اور حضرت غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی ،ضلع جھنگ کے مولانا عبدالکریم ،حافظ محمد حب مولانا چراغ قابل ذکر ہیں ۔ان بزرگ شعرا نے مذہبی کتابیں ،نظمیں اور قصہ ہیر رانجھا لکھ کر شہرت پائی۔ 1725 میں جھنگ کے صدیق لالی نے قصہ لالیاں اور مثنوی یوسف زلیخا سادہ زبان میں لکھکر سرائیکی زبان میں اپنا لوہا منوایا۔

غلام محمد نے لوک کہانی لیلاں چنیز لکھ کر داد حاصل کی ۔اس طرح اٹھارویں صدی میں حیدر ملتانی کے حرفیاں، ڈوہڑے اور مولود کے علاوہ قصہ ہیر رانجھا قابل ذکر ہیں۔ ان کی شاعری میں عشقیہ واقعات بڑے موثر انداز میں پیش کئے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ حافظ جمال، فقیر محمد یار، نوشہ نول قلندر ، احمد یار چوی ، منشی غلام حسن گامن سرائیکی کے نامور شعراء کے طور پر ابھرے جب کہ انیسویں صدی میں حضرت خواجہ غلام فرید کی سرائیکی شاعری سامنے آئی جنہیں سرائیکی زبان کا سرتاج الشعرا کہا گیا ہے ۔

سرائیکی شاعری ادب میں عاشق ملتانی ، بہار شوق، مرثیہ گوئی میں سرور کربلائی ،جانباز جتوئی ،حیدر گردیزی ،اقبال سوکڑی، محسن نقوی ،سفیر لاشاری ،شاکر تونسوی ،ریاض رحمانی ،حبیب فائق اور کئی دوسرے شعرا نے طبع آزمائی فرمائی ۔دیگر اضاف میں دلشاد کلانچوی ،ڈاکٹر مہر عبدالحق ،طاہر تونسوی، فدائے الہدا ، ریاض رحمانی، سرور کربلائی ،جانباز جتوئی، سجاد حیدر، پرویز شاکر احمد پوری ،ارشاد تونسوی، خرم بہاولپوری، سائل ڈیروی اور شاکر شجاع آبادی جیسے کئی دوسرے نامور ادیبوں نے اپنا لوہا منوایا ہے ۔

سرائیکی نثری ادب

سرائیکی ادب کی پہلی نثری تنصیف ڈاکٹر مہر عبدالحق کی کتاب نورجمال سوانح نگاری ہے ۔جبکہ پہلا سرائیکی ناول گلو ہے جو غلام حسن حیدرانی کا ہے ۔جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سرائیکی کا پہلا ناول ظفر لاشاری کا ناول نازو ہے۔ ان کے بعد ظفر لاشاری کا پہاج پھر ڈاکٹر منیر احمد علوی کا ناول اپنی رات جو پانی تھئی۔ سجاد حیدر پرویز کا عشق دے ونج انوکھڑے ۔محمّد اسماعیل احمد کا جھولیاں۔ پروفیسر سرور نیازی کا کچہ ۔پھر فیاض حسین قاصر فریدی کا سانول قابل ذکر ہیں ۔ان کے علاوہ شاہکار ناولوں کے سرائیکی میں تراجم بھی کیے گئے ۔

افسانوی نثر میں غلام حسن حیدرانی کا پہلا سرائیکی افسانہ منظر عام پر آیا ۔انہیں سرائیکی افسانے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے ۔ان کی افسانہ نگاری حقیقت نگاری پر ہے ۔جدید ادبی تحریکوں کے اثرات ملتے ہیں علامت نگاری اور تجزیات کو بھی سرائیکی کے افسانوں میں بھی شریک کیا ۔
جدید افسانہ نگاروں میں بہاولپور کے بتول رحمانی، ملتان کے احسن واگھا ،محمد اسماعیل احمدانی اور عامر فہیم کے نام قابل ذکر ہیں ۔انہوں نے اپنی افسانوں میں اپنے اپنے علاقوں کے لوگوں کے رہن سہن اور معاشرتی زندگی کی ناہمواریوں کی مکمل تصویر کھینچی ہے ۔اسی طرح محمد اسلم قریشی کے افسانوی مجموعہ سانولی دھپ ۔مسرت کلونچی کا اچی دھرتی ۔ جھکا آسمان عامر فہیم کا۔ جاگدی اکھ دا خواب احسن واگھا کا ۔تھل کرن دریا جدید قسم کے افسانوی مجموعے ہیں ۔

سرائیکی میں طنزومزاح

سرائیکی تحریروں میں طنز و مزاح کا آغاز بریگیڈیئر نذیر علی شاہ کی تحریروں سے ملتا ہے۔ ان کے بعد اقبال سوکڑی، فاروق آتش، طاہر تونسوی ،شمشیر حیدر ہاشمی اور ڈاکٹر انوار احمد کے مزاحیہ مضامین قابل دید ہیں۔ اس کے علاوہ اسلم قریشی کی کتاب کتکالیاں طنزومزاح کی پہلی کتاب کہلائی ۔


اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اسوہ حسنہ ﷺ

اسوہ حسنہ ﷺ اللہ‎ تعالی کا قانون ہے کے جب باطل سر اٹھاتا ہے تو اسے کچلنے کے لیے حق کی طاقت سامنے آتی ہے۔جب نمرود نے خدائی کا دعوی کیا تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اس دنیا میں بھجا گیا۔جب فرعون نے خدائی کا دعوی کیا تو اس کے گمنڈ کو خاک میں ملانے کے لیے خدا نے حضرت موسی علی السلام کو دنیا میں بھجا۔ ٹھیک اسی طرح عرب میں جہالت کا بازار گرم تھا۔ہر طرف جھوٹ اور باطل تھا۔ظلم و ستم عام تھا۔لوگ گمراہی میں ڈوبے ہوے تھے۔قتل و غارت عام تھی ہر طرف چوری چکاری، دھوکے بازی کا راج تھا۔بیٹی جیسی نعمت کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔اگر لڑائی ہو جاتی تو جھگڑا صدیوں تک جاری رہتا تھا۔ کہیں تھا مویشی چرانے پر جھگڑا  کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا  یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں  یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں  پھر ان کو ہدایت پر لانے کے لیے ایک بچے نے جنم لیا۔یہ ربیع اول کا مہینہ تھا۔رات کا اندھرا چھٹا اور نبیوں کے سردار پیدا ہوے جنہوں نے بڑے ہو کر دنیا میں حق قائم کیا اور پوری دنیا میں علم کی روشنی پھلا دی۔ یہ...

اسلام اور عفو و درگزر

عفوودگزر کا مطلب عفو کے معنی ہیں مٹانا ، معاف کرنا ، نظر انداز کرنا اور چشم پوشی کرنا ہیں۔عفو اور درگزر دو مترادف الفاظ ہیں۔اسلامی شریعت میں انتقام لینے اور سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود صرف اللہ کی رضا اور مجرم کی اصلاح کے لیے کسی کی لغزش ، برائی اور زیادتی کو برداشت کرتے ہے غصہ ہونے کے باوجود معاف کرنا عفو ودرگزر کہلاتا ہے۔عفو اللہ‎ کی صفت ہے اور اس کے اسمائے حسنی میں سے ہے۔معاف کرنا بلند ہمتی فضیلت والا کام ہے۔رسولﷺ کے اخلاق میں اس فعل کو بہت زیادہ بلند مقام حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ اس صفت کو اپنے بندوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ارشاد ربانی ہے معاف کرنے کی عادت ڈالو نیک کاموں کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرو عفو کا مطلب ہرگز نہیں ہے کے بدلہ یا انتقام نہ لیا جائے ۔جہاں بدلہ ناگزیر ہو جائے وہاں عفو کی بجاے انتقام لینا ہی بہتر ہے تاکہ شرپسند افراد کو اس ناجائز رعایت سے فائدہ اٹھا کر معاشرے کا امن وسکوں برباد نہ کر سکیں ۔اور دینی اور اجتماعی یا معاشرتی یا اخلاقی حدود پر ضرب نہ لگا سکیں۔ عفو درگزر کی اہمیت اسلامی اخلاق میں عفو ودرگزر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔اشاعت ا...

پاکستان میں پائے جانے والے معدنیات کی تفصیل۔

معدنیات   پاکستان میں مدنی وسائل کی ترقی کیلئے س1975 میں معدنی ترقیاتی کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا ۔معدنیات کو دھاتی اور غیر دھاتی معدینات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں دھاتی معدنیات میں شامل ہیں  لوہا تانبا کرومائیٹ پاکستان کی غیر دھاتی معدنیات میں شامل ہیں معدنی تیل قدرتی گیس خوردنی نمک چونے کا پتھر سنگ مرمر چپسم ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔ معدنی تیل انسان کے لیے معدنی تیل اور اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات کی معاشی اہمیت صنعتوں میں استعمال ہونے والی تمام معدنیات سے بڑھ چکی ہے ۔مدنی تیل کی اہم مصنوعات میں گیسولین، ڈیزل ،موبل آئل، موم اور کول تار اور مٹی کا تیل وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں تیل صاف کرنے کے کارخانے موجود ہیں۔ پاکستان میں آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے قیام کے بعد تیل کی تلاش کے کام میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان میں سطح مرتفع پوٹھوار کا علاقہ معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم خطہ ہے۔ اس علاقے کے معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم سطح ہے اس کے علاقے میں معدنی تیل کے کنوئیں بلکسر ،کھوڑ ،ڈھلیاں ،جویا میر، منوا...