دمہ کیا ہے؟ علامات، علاج اور احتیاط
یہ بیماری سانس میں خرابی کی وجہ سے ہوتی ہے۔جب سانس کی نالیوں میں خرابی پیدا ہو جائے یا پھیپڑوں کی نالیا ں باریک ہو جائیں تو اس کی وجہ سے جو مرض لاحق ہوتا ہے اسے دمہ کہا جاتا ہے۔دمہ ایک ایسا مرض ہے جو انسان کو تھوڑا تھوڑا کر کے مارتا ہے۔
علامات
دمہ کی بہت سی علامات ہیں جس سے اس کی شناخت کی جاتی ہے۔ان میں سے کچھ علامات پیش کی جارہی ہیں۔
بچوں کو اگر دودھ پینے میں تکلیف محسوس ہوتو یہ بھی دمہ کی علامت ہے۔
وجوہات
وہ عوامل جو دمہ کی وجہ بنتے ہیں وہ یہ ہیں۔
ان چیزوں سے دمہ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
علاج و احتیاط
دمہ کا کوئی مخصوص علاج نہیں ہے جس سے دمہ کو ختم کیا جائے مگر کچھ ایسی چیزیں ہیں جس کو استعمال کر کے دمہ کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔دمہ کی پہچان اور شناخت جسمانی جانچ اور میڈیکل ٹیسٹ کی مدد سے کی جاتی ہے۔دمہ کی تصدیق کرنے کے لیے ایکسرے ، خون میں آکسیجن کی مقدار ، خون کی جانچ ، پھیپڑوں کی حرکت کی جانچ ، اسپائرومیٹری اور الرجی کے ٹیسٹ کے زریعے کی جاتی ہے۔
دمہ کو دو طریقوں سے روکا جاسکتا ہے۔
دمہ کی روک تھام کے لیے احتیاط یہ ہے کے دمہ کے شکار مریض کو اپنی روز مرہ کی زندگی کے معمولات تبدیل کرنا ہو گا۔اگر مریض کسی بھی قسم کا نشہ کرتا ہے تو اسے فورا چھوڑنا ہوگا۔دمہ کے مریض کو دھول ، مٹی اور دوسری قسم کی فضائی آلودگی سے بچنا چاہے۔دمہ کا شکار مریض کو موسم میں تبدیلی سے نقصان ہوتا ہے اس لیے اس سے بچنے کے لیے ضروری اقدامات اختیار کرنے چاہے۔ دمہ کے مریض کو ایک اہم بات ذہن میں بٹھانا ہو گی کے نہ صرف سگریٹ سے دوری اختیار کرنی ہے بلکہ سگریٹ پینے والوں سے بھی دور رہنا ہے کیوں کے سگریٹ سے نکلنے والا دھواں دوسرے کے لیے بھی مضر ہے۔
دمے کے علاج کے لیے سب سے زیادہ دو چیزیں استعمال ہوتی ہے۔ایک میٹرڈ ڈوز اِن ہیلر اور دوسرے پاؤڈر اِن ہیلر۔ان دواؤں میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان کے کسی قسم کے کوئی برے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔اس لیے کہ ان ہیلر جسے دمہ کا پمپ بھی کہا جاتا ہے سے دی جانے والی دوا کی بہت کم مقدار خون میں شامل ہوتی ہے۔سانس کی نالی جس جگہ خراب ہوتی ہے یہ دوائیں اسی جگہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ اِن ہیلر سانس کی نالیوں کو اور زیادہ خراب ہونے سے بچاتا ہے۔اگر کبھی اِن ہیلر کو استعمال کرنا بند کر دیا جائے اور فوری طور پر آرام کے لیے گولی و انجیکشن کا استعمال بار بار کرنا چاہے ۔جس گولی کو بار بار استعمال کرنا چاہے اس کا نام اسٹیرائیڈ ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ دوا خون میں پہنچ کر مزید نقصان کا باعث بنتی ہیں جس سے اور نقصان ہو سکتے ہیں جیسے ہڈیوں کمزور ہوسکتی ہیں اور دیگر جسمانی حصہ بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
جب دمہ کا مریض دمہ کے آخری درجے تک پہنچ جاتا ہے تو اس واقت کوئی دوا کام نہیں کرتی اور اسی صورت حال میں کوئی بھی دوا کرگر ثابت نہیں ہوتی ہے۔ایسی حالت سے بچنے کے لیے ڈاکٹر ان ہیلر کے استعمال کرنے پر بہت زور دیتے ہیں۔مگر بہت سے لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے ان ہیلر کو نقصان دہ اور مضر سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں اِن ہیلرکا کوئی مضر پہلو اب تک سائنسدانوں اور ریسرچرز کے سامنے نہیں آیا ہے، بلکہ ان ادویہ کے ذریعے دمےکو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے اور مریض کی تکلیف کو کم کیا جاسکتا ہے۔
علامات
دمہ کی بہت سی علامات ہیں جس سے اس کی شناخت کی جاتی ہے۔ان میں سے کچھ علامات پیش کی جارہی ہیں۔
- کھانسی
- سانس پھولنا
- سینے میں درد
- سانس لیتے وقت سیٹی کی آواز کا آنا
- نیند میں بے چینی یا پریشانی ہونا
- تھکاوٹ
بچوں کو اگر دودھ پینے میں تکلیف محسوس ہوتو یہ بھی دمہ کی علامت ہے۔
وجوہات
وہ عوامل جو دمہ کی وجہ بنتے ہیں وہ یہ ہیں۔
- اندرونی و بیرونی الرجی
- دھول مٹی
- موسم کی تبدیلی
- سگریٹ نوشی کرنا
- ہوائی آلودگی
- سانس کی نالیوں میں انفیکشن
ان چیزوں سے دمہ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
علاج و احتیاط
دمہ کا کوئی مخصوص علاج نہیں ہے جس سے دمہ کو ختم کیا جائے مگر کچھ ایسی چیزیں ہیں جس کو استعمال کر کے دمہ کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔دمہ کی پہچان اور شناخت جسمانی جانچ اور میڈیکل ٹیسٹ کی مدد سے کی جاتی ہے۔دمہ کی تصدیق کرنے کے لیے ایکسرے ، خون میں آکسیجن کی مقدار ، خون کی جانچ ، پھیپڑوں کی حرکت کی جانچ ، اسپائرومیٹری اور الرجی کے ٹیسٹ کے زریعے کی جاتی ہے۔
دمہ کو دو طریقوں سے روکا جاسکتا ہے۔
- علاج
- احتیاط
دمہ کی روک تھام کے لیے احتیاط یہ ہے کے دمہ کے شکار مریض کو اپنی روز مرہ کی زندگی کے معمولات تبدیل کرنا ہو گا۔اگر مریض کسی بھی قسم کا نشہ کرتا ہے تو اسے فورا چھوڑنا ہوگا۔دمہ کے مریض کو دھول ، مٹی اور دوسری قسم کی فضائی آلودگی سے بچنا چاہے۔دمہ کا شکار مریض کو موسم میں تبدیلی سے نقصان ہوتا ہے اس لیے اس سے بچنے کے لیے ضروری اقدامات اختیار کرنے چاہے۔ دمہ کے مریض کو ایک اہم بات ذہن میں بٹھانا ہو گی کے نہ صرف سگریٹ سے دوری اختیار کرنی ہے بلکہ سگریٹ پینے والوں سے بھی دور رہنا ہے کیوں کے سگریٹ سے نکلنے والا دھواں دوسرے کے لیے بھی مضر ہے۔
دمے کے علاج کے لیے سب سے زیادہ دو چیزیں استعمال ہوتی ہے۔ایک میٹرڈ ڈوز اِن ہیلر اور دوسرے پاؤڈر اِن ہیلر۔ان دواؤں میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان کے کسی قسم کے کوئی برے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔اس لیے کہ ان ہیلر جسے دمہ کا پمپ بھی کہا جاتا ہے سے دی جانے والی دوا کی بہت کم مقدار خون میں شامل ہوتی ہے۔سانس کی نالی جس جگہ خراب ہوتی ہے یہ دوائیں اسی جگہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ اِن ہیلر سانس کی نالیوں کو اور زیادہ خراب ہونے سے بچاتا ہے۔اگر کبھی اِن ہیلر کو استعمال کرنا بند کر دیا جائے اور فوری طور پر آرام کے لیے گولی و انجیکشن کا استعمال بار بار کرنا چاہے ۔جس گولی کو بار بار استعمال کرنا چاہے اس کا نام اسٹیرائیڈ ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ دوا خون میں پہنچ کر مزید نقصان کا باعث بنتی ہیں جس سے اور نقصان ہو سکتے ہیں جیسے ہڈیوں کمزور ہوسکتی ہیں اور دیگر جسمانی حصہ بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
جب دمہ کا مریض دمہ کے آخری درجے تک پہنچ جاتا ہے تو اس واقت کوئی دوا کام نہیں کرتی اور اسی صورت حال میں کوئی بھی دوا کرگر ثابت نہیں ہوتی ہے۔ایسی حالت سے بچنے کے لیے ڈاکٹر ان ہیلر کے استعمال کرنے پر بہت زور دیتے ہیں۔مگر بہت سے لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے ان ہیلر کو نقصان دہ اور مضر سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں اِن ہیلرکا کوئی مضر پہلو اب تک سائنسدانوں اور ریسرچرز کے سامنے نہیں آیا ہے، بلکہ ان ادویہ کے ذریعے دمےکو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے اور مریض کی تکلیف کو کم کیا جاسکتا ہے۔
انسانی جسم کا یہ قدرتی پہلو ہے کہ جو حصہ ایک بار خراب ہوجائے وہ دوبارہ پہلے جیسا نہیں آ بن سکتا مثال کے طور پر آنکھوں کی نظر کم ہوجانا، دل کا بڑا ہوجانا ، گردے فیل ہوجانا، پھیپھڑے خراب ہوجانا یا کسی حصہ کا بدن سے معطل ہوجانا وغیرہ۔ تاہم اعضائے انسانی کو دوائیوں اور احتیاطی تدابیر کے ذریعے مزید خراب ہونے سے ضرور روکا جا سکتا ہے۔
صحت کے بارے میں مزید پڑھیں