نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اسلام میں تکبر کس کو کہا گیا ہے؟


تکبر

غرور، گھمنڈ، خود پسندی، دوسروں کے مقابلہ میں خود کو بڑا سمجھنا اور دوسروں کوحقیر و کم تر سمجھنا، کبر کہلاتا ہے۔ جب کہ کبرونخوت ،فخر و غرور، خود پسندی و حقارت کا اظہار کرنا تکبر کہلاتا ہے۔
اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں مختال، استكبار، جبار اور متکبر کے الفاظ بیان ہوئے ہیں۔ ایک حدیث میں تکبر کے مفہوم کو یوں واضح کیا گیا ہے۔
ایک خوبصورت شخص نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ میں ایک حسین شخص ہوں، حسن مجھے پسند ہے، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ حسن میں مجھے سے کسی کو فوقیت حاصل ہو تو کیا یہ تکبر ہے آپ ﷺ نے فرمایا نہیں تکبر یہ ہے کہ حق کو قبول نہ کیا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جائے۔
تکبر کی اسی حثیت کو سب سے زیادہ مہلک اور رذائل اخلاق کی بنیاد کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے اسی برائی کا اظہار ہوا اور وہ بھی شیطان نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس بداخلاقی کا ثبوت دیا اور کہا میں آدم سے بہتر ہوں، وہ مٹی سے بنا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں۔ گویا تکبر شیطانی فعل ہے اور شیطان کی طرح مردود اور قبیح ہے۔ تکبر ہی کی وجہ سے لوگوں
نے پیغمبروں کی مخالفت کی۔ اس قسم کے لوگ عام لوگوں کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں ۔ اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے برتر اور اعلی سمجھے ہیں۔ متکبر آدمی عام لوگوں کے ساتھ اٹھنا ،بیٹھنا، چلنا پھرنا ، بات چیت کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ راستے میں لوگوں سے آگے چلنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اسے سلام کریں۔
اس قسم کی تمام صورتمیں الله تعالی اور اس کے رسول ﷺ کو بہت ہی ناپسند ہیں ۔کبر اور تکبر صرف اللہ تعالی کو جچتا ہے کیونکہ وہ اکبر، کبیر اور عظیم ہے جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ تکبر میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے۔ اب جوشخص مجھ سے ان میں سے کسی چیز کو چھیننا چاھے تو میں اسے جہنم میں پھینک دوں گا اور مجھے پروا نہیں ہوگی ۔
قرآن حکیم میں تکبر کرنے والوں کی متعدد مقامات پر شدید مذمت کی گئی ہے۔
ارشاد ربانی ہے

  • جو لوگ میری عبارت سے تکبر کرتے ہیں۔ وہ ذلیل و رسوا ہو کر عنقریب جہنم میں جمع ہوں گے

  • اور لوگوں سے بے رخی نہ کرو اور زمین میں اترا کر نہ چل۔ بے شک اللہ تعالی اترانے اور گھمنڈ کر نے والے کو پسند نہیں کرتے

  • اسی طرح اللہ تعالی ہر تکبر اور ظالم کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔

حضور رسالت ماب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تواضع اور سادگی پسند تھے نہ تو خود کبھی تکبر اور غرور کیا اور نہ ہی تکبر کرنے والے کو پسند فرمایا بلکہ ہمیشہ ایسے شخص سے نفرت اور اس کی مذمت فرمائی۔
آپ ﷺ نے فرمایا

  • جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

  • جو شخص غرور سے اپنے کپڑے گھسیٹ کر چلے گا۔ الله قیامت کے روز اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔

  • آپ ﷺ دوزانو بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے کہ ایک بدو بھی اس وقت موجود تھا ۔ اس نے کہا کہ بیٹھنے کا یہ کون سا طریقہ ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ نے مجھے شریف بندہ بنایا ہے ۔ متکبر اور سرکش نہیں۔

  • یقینا غرور نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو ۔

  • کیا میں تم کو بتاوں کے جنتی کون ہے ؟ ہر وہ شخص جو کمزور ہو اورلوگ اسے کمزور سمجھیں ۔ کیا تم کو بتاؤں کہ دوزخی کون ہے ؟ ۔۔۔ ہر اکھڑ ، بدخواہ اور مغرور شخص۔

عام طور پر حسب ونسب ، حسن و جمال ، مال و دولت اور قوت وشوکت کوفخر وغرور کے اسباب میں سے شمار کیا جاتا ہے ۔ ان کی وجہ سے لوگ اپنی حقیقت کو بھول جاتے ہیں ، انسان کو انسان تصور نہیں کرتے ۔ اسلام ان چیزوں کو فخر کے اسباب میں ہرگز تصور نہیں کرتا بلکہ کسی کی شرافت ، عظمت ، عزت اور برتری کی بنیاد تقوی کو قرار دیتا ہے ۔ یہ تمام چیز بہت اہمیت کی حامل ہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ حسسیں ہے اور حسن کو پسند فرماتا ہے ۔ آپ ﷺ نے حسن کی تعریف کی مگر اسے غرور کا غرور کا زریعے سمجھنے سے منع فرمایا ۔ آپ ﷺ نے قوت وشوکت پر غور کرنے کے بجائے اسے نیکیوں کی اشاعت اور دین کی تبلیغ کے لئے وقف کرنے کا حکم دیا ۔ مال و دولت ضائع کرنے کی ممانعت کی اور اس کی حفاظت اتنی ضروری قرار دی کہ جو اپنے مال کی حفاظت میں قتل ہوجائے اسے شہید کا لقب عطا کیا مگر جب ان پر فخر و غرور کرنا شروع کر دیا جائے تو پھر یہ سراب کی مانند بن جاتی ہے اور بہت ہی مہلک اور خطرناک شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
اس لئے تکبر سے بچنے کے لئے اسلام اور اسلام کے علمبرداروں نے ان کا بہترین علاج زکر ، شکر اور فکر آخرت تجویز کیا ہے کیونکہ جب کوئی مسلمان ذکر، شکر اور آخرت کا فکر رکھتا ہے تو اس کی نیکیاں بھی محفوظ رہتی ہیں اور وہ کبر و نخوت جیسی روحانی و اخلاقی مہلک مرض کا شکار بھی نہیں ہونے پاتا ۔



اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اسوہ حسنہ ﷺ

اسوہ حسنہ ﷺ اللہ‎ تعالی کا قانون ہے کے جب باطل سر اٹھاتا ہے تو اسے کچلنے کے لیے حق کی طاقت سامنے آتی ہے۔جب نمرود نے خدائی کا دعوی کیا تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اس دنیا میں بھجا گیا۔جب فرعون نے خدائی کا دعوی کیا تو اس کے گمنڈ کو خاک میں ملانے کے لیے خدا نے حضرت موسی علی السلام کو دنیا میں بھجا۔ ٹھیک اسی طرح عرب میں جہالت کا بازار گرم تھا۔ہر طرف جھوٹ اور باطل تھا۔ظلم و ستم عام تھا۔لوگ گمراہی میں ڈوبے ہوے تھے۔قتل و غارت عام تھی ہر طرف چوری چکاری، دھوکے بازی کا راج تھا۔بیٹی جیسی نعمت کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔اگر لڑائی ہو جاتی تو جھگڑا صدیوں تک جاری رہتا تھا۔ کہیں تھا مویشی چرانے پر جھگڑا  کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا  یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں  یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں  پھر ان کو ہدایت پر لانے کے لیے ایک بچے نے جنم لیا۔یہ ربیع اول کا مہینہ تھا۔رات کا اندھرا چھٹا اور نبیوں کے سردار پیدا ہوے جنہوں نے بڑے ہو کر دنیا میں حق قائم کیا اور پوری دنیا میں علم کی روشنی پھلا دی۔ یہ...

پاکستان میں پائے جانے والے معدنیات کی تفصیل۔

معدنیات   پاکستان میں مدنی وسائل کی ترقی کیلئے س1975 میں معدنی ترقیاتی کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا ۔معدنیات کو دھاتی اور غیر دھاتی معدینات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں دھاتی معدنیات میں شامل ہیں  لوہا تانبا کرومائیٹ پاکستان کی غیر دھاتی معدنیات میں شامل ہیں معدنی تیل قدرتی گیس خوردنی نمک چونے کا پتھر سنگ مرمر چپسم ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔ معدنی تیل انسان کے لیے معدنی تیل اور اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات کی معاشی اہمیت صنعتوں میں استعمال ہونے والی تمام معدنیات سے بڑھ چکی ہے ۔مدنی تیل کی اہم مصنوعات میں گیسولین، ڈیزل ،موبل آئل، موم اور کول تار اور مٹی کا تیل وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں تیل صاف کرنے کے کارخانے موجود ہیں۔ پاکستان میں آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے قیام کے بعد تیل کی تلاش کے کام میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان میں سطح مرتفع پوٹھوار کا علاقہ معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم خطہ ہے۔ اس علاقے کے معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم سطح ہے اس کے علاقے میں معدنی تیل کے کنوئیں بلکسر ،کھوڑ ،ڈھلیاں ،جویا میر، منوا...

سچ کیا ہے؟ اسلام میں سچائی کی اہمیت

سچائی کا اسلام میں ایک اہم مقام ہے۔جھوٹے پر لعنت بھجی گئی ہے۔سچے انسان کو کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے۔حضور ﷺ کو لوگ صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے ۔لوگ ان کے پاس امانتں رکھواتے تھے ۔اسی طرح حضرت ابوبکرصدیق راضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کی نبوت پر یقین کیا تو انہوں نے صدیق کا لقب پایا۔ اسلام کی اخلاقی اقدار اور معاشرتی زمہ داریوں میں سے اہم ترین اور تمام عمدہ صفات کا منبع صدق اور سچائی ہے ۔ صدق ایمان کی علامت اور آخرت کا توشہ ہے ۔ پچ سے مراد یہ ہے کہ ہر حال میں انسان کا ظاہرو باطن ایک ہو ۔ دل اور زبان میں یکسانیت ہو ،قول و فعل میں مطابقت ہو ، غلط بیانی ، جھوٹ مکر و فریب اور دھوکہ بازی سے اجتناب ہو۔ صدق کے معنی ہیں سچ بولنا اور سچ کر دکھانا ۔ صدیق اسے کہا جاتا ہے جو ہمیشہ سچ بولے ۔ اپنی فراست اور ایمان اور دل کی پاکیزگی سے حق کی تصدیق کرے ۔ اللہ رب العزت نے صدق اور سچائی کو انبیاء اولیاء اور صلحاء کی صفت قراردیا ہے اور سچ بولنے والوں کو انبیا کا ساتھی قرار دیا ہے ۔ یاجوج ماجوج کون ہیں؟ اور کب آئیں گے؟ قرآن مجید کا تعارف  نبوت سے قبل اہل مکہ جناب رسالت ماب کو صادق اور ...