نینو ٹیکنالوجی
آج ہماری دنیا جدید سے جدید ہورہی ہے۔آج کے دور میں سائنس نے بہت ہی تیزی سے ترقی کی ہے اور ہماری زندگی کو آسان بنانے کے لیے نت نئی چیزیں متعارف کرائی ہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایک شاندار مثال کمپیوٹر ہے جس پر انسان گھر بیٹھ کر انٹرنیٹ کے زریعے ہزاروں سہولتیں استعمال کرتا ہے اور اسی کے زریعے چند سکینڈوں اور منٹوں میں بہت سارے کام آسانی سے ہوجاتے ہیں۔آج کے جدید دور میں نینو ٹیکنالوجی سب سے زیادہ مشہور ہونے والی ٹیکنالوجی ہے۔میاس ٹیکنالوجی نے چند برسوں میں جس تیز رفتار سے ترقی کی تھی اس کو دیکھ کر تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نینو ٹیکنالوجی کا مستقبل میں کیا مقام ہو گا ۔
مادے کی نینو اسکیل پر توڑ جوڑ کو نینو ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے ۔نینو سے مراد چھوٹی چیزیں ہیں ۔ چھوٹی چیزوں سے مراد ایسی اشیا ہیں جو سوئی کی نوک سے بھی ایک ملین گنا چھوٹی ہوں۔اگر تین یا چار ایٹمز کو ایک لائن میں رکھ دیں اور ان لائن کی پمائش کریں تو ان کی لمبائی ایک میٹر کے ایک اربوں کا حصہ ہو گی۔اسے نینو میٹر کہا جاتا ہے۔اگر ایسی مادی اشیا کو بنایا جائے جن میں ایٹم کو اور خاص جگہ پر رکھ دیا جائے تو دراصل یہ ہی نینو ٹیکنالوجی ہے۔
کچھ سائنس دانوں کی رائے ہے کہ آج کی صدی یعنی اکیسویں صدی میں سائنس کے شعبہ میں جو انقلابی
ایجادات ہوں گی، ان میں سے بہت سی انقلابی ایجادات نینو ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہوں گی ۔اس سے تو صاف لگتا ہے کہ ابھی سے پہلے یعنی بیسویں صدی کے آخر میں جو سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں جو انقلاب پرپا ہوا تھا ،آج یعنی اکیسویں صدی میں نینو ٹیکنالوجی کی وجہ سے بیسوں صدی سے بھی بڑا انقلا ب آیا گا ۔سائنسی ماہرین کے مطابق اگر نینو ٹیکنالوجی کا درست استعمال کیا جائے تو اس سے ہر طرح کی ٹیکنالوجی بدل جائے گی ۔ نینو ٹیکنالوجی کا مستقبل بہت ہی شاندار اور روشن ہے۔
اس نینو ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والا خام مال اصّل میں ایسی چیزیں ہیں جو جانداروں کے پیدا ہونے اور گروتھ میں آہم حثیت رکھتی ہیں ۔نینو میں مادہ کا جو استعمال کیا جاتا ہے وہ بہت ہی چھوٹی سطح پر ہوتا ہے۔جیسے کے ایک نینو میٹر ایک میٹر کا اربوں حصہ کے برابر ہوتا ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کے اگر ہائیڈروجن کے دس ایٹم ایک دوسرے کے بعد ایک ایک کر کے جوڑ دیں تو یہ ایک نینو میٹر ہو گا۔ انسان کے ایک بال کی موٹائی 80 ہزار نینو میٹر کے قریب ہوتی ہے اسی طرح انسان کا ایک خلیہ 5 ہزار نینو میٹر تک ہوتا ہے۔اس دونوں مثالوں سے اندازہ لگائیں کے نینو ٹیکنالوجی میں کس قدر چھوٹی سطح پر کام کیا جاتا ہے ۔
نینو ٹیکنالوجی میں نہ صرف مادّے کا انتہائی بہت چھوٹا سائز ہوتا ہے بلکہ اس کی خصوصیات بھی بدل جاتی ہیں۔ اگر تابنے کو نینو کے درجے پر لیا جائے تو وہ اتنا لچک دار ہوجاتا ہے کہ کمرے کی درجۂ حرات پر ہی اسے کھینچ کر عام تانبے کے مقابلے میں پچاس گنا لمبی تار بنائی جاسکتی ہے۔نینو کے درجے پر سیدھی سادی اور بے ضرر اشیاء بھی بہت خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔اس کی وجہ سے جان دار خلیوں اور مادّوں کے بے جان ایٹمز کو ساتھ جوڑ کر کئی اشیاء بنائی جارہی ہیں۔
ایسے حالات میں ماہرین کی جانب سے یہ خوف کیا جارہا ہے کہ اس طرح سے بنی ادویات یا کریم جسم کے خلیوں میں گھس کر انہیں خراب اور برباد کرسکتی ہے مزید ڈی این اے کو نقصان پہنچا دے سکتی ہے یا بلڈ برین بیریئر کو ختم کرسکتی ہے لیکن پھر بھی دماغ اور خون کے درمیان موجود اس جگہ کو پار کرنا ادویات کے لیے کافی مشکل ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں اور ادویات میں نینو ٹیکنالوجی کااستعمال ہونے پر جہاں بہت سے لوگ خوش ہیں وہیں سائنس دانوں اور ماحول کے ماہرین کو فکر ہورہی ہے۔ ان ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ نینو ٹیکنالوجی جتنی زیادہ طاقت ور ہوتی جائے گی، انسانی معاشرے پر اس کے اثرات بھی اتنے ہی طاقت ور اور مظبوط ہوتے جائیں گے۔
ماہرین کے مطابق یہ بہت ضروری ہے کہ ہم نینو ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں پالیسیاں وضع کریں۔ان کے مطابق پچاس سالوں میں ہمیں ایٹم بم اور ایٹمی ٹیکنالوجی سے جو سبق ملے ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ ہم نے پہلے ایٹم بم بنایا اور پھر قوانین بنائے تا کہ لوگ اندھا دھند بم نہ گرانا شروع کر دائیں ۔اس چیز کو مدنظر رکھ کر لگتا ہے نئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوگا۔ لیکن یہ تمام باتیں جاننے کے باوجود نینو ٹیکنالوجی کو جس وجہ سے اہمیت دی جا رہی ہے وہ یہ ہے نینو ٹیکنالوجی کے نقصانات بہت کم ہیں اور فائدے زیادہ ہیں۔
کچھ ماہرین کے کا کہنا ہے کہ نینو ٹیکنالوجی کو درست اور صحیح استعمال کرنے کے لیے نئے قوانین بنانا ضروری ہے۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آنے والے وقت میں اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں آجائیں گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صرف چند سالوں کے بعد جو بیٹریز تین دن میں ختم ہوجاتی ہیں تو نینو ٹیکنالوجی کی وجہ سے کئی سال تک چلنے والی بیٹریز آجائیں گی۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ چند برسوں میں نینو ٹیکنالوجی کے کو استعمال کر کے فوجیوں کے لیے سامان ایک سے دوسری جگہ پہنچانا آسان ہو جائےگا۔ جہاں اس وقت ایک فوجی کو 10 یا 15 کلو گرام کا بوجھ اٹھا کر چلنا پڑتا ہے،وہاں چند برس بعد یہ صرف 10 یا 15 گرام رہ جائےگا۔ نینو ٹیکنالوجی سے انسان کو بہت فائدے ہو سکتے ہیں۔تاہم اس کے کچھ مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں، خاص طور پر بہت ہی چھوٹی اشیاء یا نینو ٹیوب پارٹیکلز جو سانس لیتے وقت انسان کے جسم میں جا سکتے ہیں جو نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔
تو یہ ضروری ہے کہ ان نہایت ہی چھوٹی اشیاء کو روزمرہ استعمال کی اشیاء میں شامل کرنے سے پہلے آزادانہ سائنسی حفاظتی کمیٹی سے ان کی تصدیق ہونی چاہیے۔
نینو ٹیکنالوجی طبی اور صنعتی تحقیق کے لیے نہایت ہی مفید ثابت ہوسکتی مگر اس سائنس کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں۔بعض افراد کا خیال ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے وائرس سے بھی چھوٹی مشینیں دنیا پر قبضہ کر کے اسے تباہ کر دیں گی۔ ماہرین کے مطابق ایسی باتیں بالکل غلط اور خیالی ہیں