قیامت کا دن جدید سائنس کیا کہتی ہے !
ماہرین فلکیات یہ کہتے ہیں زمین کی طرح کائنات میں اور بہت سارے سیارے پائے جاتے ہیں ۔اس بات کو تو سائنس آج جان سکی ہے مگر یہ بات تو قرآن مجید نے ہمیں چودہ سو سال پہلے بتا دی تھی کہ اس زمین کی طرح اور بہت ساری زمین قائم ہیں ۔ہم قرآن کی کچھ آیات کو پیش کررہے ہیں جس میں زمین و آسمان کے بارے میں فرمایا گیا ہے ۔
قرآن مجید میں ہے۔
- خدا وہی ہے جس نے سات آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور اسی تعداد میں زمینیں بھی۔(قرآن 65:12) ۔
ہماری اپنی کہکشاں جس کا نام ملکی وے ہے اس کے علاوہ دوسری تمام کہکشائیں بہت تیز رفتار میں ہماری کہکشاں سے دور جا رہی ہیں۔ اس بات کو سپیکٹروسکوپ نامی ایک آلے کے ذریعہ معلوم کیا گیا ۔سپیکڑوسکوپ میں ان دوسری کہکشاؤں سے آنے والی روشنی کے تجزیہ کیا جاتا ہے۔ جتنی ایک کہکشاں جتنی زیادہ دور ہے اس کی ہماری کہکشاں سے دور جانے کی رفتار بھی اتنی زیادہ ہے۔کہکشاؤں کی یہ رفتار کائنات کی توسیع کی وجہ سے ہے. آج سے پندرہ بیس ارب سال پہلے ایک زبردست دھماکہ ہوا جسے بگ بینگ کہتے ہیں جس کے نتیجہ میں کائنات قائم ہوئی اور اس وقت سے لے کر اب تک یہ کائنات پھیل رہی ہے.
کائنات صرف یہ نہیں ہے کہ لامحدود خلا میں ایک دوسرے سے دور بھاگنے والی کہکشاؤں کا نام ہو۔ اس کو ایک غبارے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جس پہ بہت تعداد میں نقطے موجود ہیں اور ہر نقطہ ایک کہکشاں کو ظاہر کرتا ہے. لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اس غبارے کی سطح دو جہتی ہے اور ہماری خلا کے سطح تین جہتوں ہے، اور یہ کائنات اپنے سے بڑی ایک جہت میں پھیل رہی ہے جو ہماری سوچ سے بھی باہر ہے ۔
قرآن مجید کی اس آیات میں کائنات کی توسیع صاف طور پر بیان کی گئی ہے
- آسمانوں کو ہم نے اپنی طاقت کے ساتھ بنایا ہے، اور ہم اس کی توسیع کر رہے ہیں۔(قرآن 51:47)
قیامت کے بارے میں فزکس کی سوچ اس خیال پر قائم ہے کہ کائنات میں توسیع وقت کی وجہ سے ہے. اگر ایسی بات ہے تو جیسے کائنات میں توسیع کی رفتار ست ہوگی تو کائنات ہمیں اس سے زیادہ تیزی سے وسیع ہوتی دکھائے دے گی کیونکہ ہم کائنات کی توسیع کی شرح کو اپنے مقامی زمینی وقت سے معلوم کرنے کی کوشش کریں گے جو کہ بہت سست ہو رہا ہے۔ کائنات کے تیزی سے توسیع میں ہونی والی اس قسم کی غلطی کو 1998 دریافت کیا گیا تھا ۔اس غلطی کوسائنسدانوں کے دو گروہوں نے معلوم کیا تھا ۔ اور دوسرے ماہرین کا بھی خیال ہے ہمیں اس بات پہ غور کرنا چاہئے کہ ہم مقامی طور پر وقت کی رفتار میں کمی کی پیمائش نہیں کرسکتے ہیں۔
لیکن اگر ہمارے وقت میں کمی واقع ہوتی ہے تو اگر ہم دور دراز جگہ دیکھیں تو ہمیں اربوں نوری سال دور سے آنے والی روشنی میں میں ماضی کے تیز وقت کے ثبوت دیکھنے کو ملیں گے۔آخر کار کائنات کی توسیع میں کمی وقت روکنے کا سبب بن جائے گی اور اس وقت سے پھر کائنات سکڑنا شروع ہوجائے گی اور وقت الٹا چلنے لگے گا۔
اس بات کو قرآن مجید نے پہلے ہی مکمل طور پر بیان کردیا ہے ۔قرآن مجید میں کائنات کے سکڑاؤ کو کاغذ کے لپیٹے جانے سے تشبیہ دی گئی ہے اور دوبارہ تخلیق کا عمل کیا جائے گا۔
- جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹا جاتا ہے، جس طرح ہم نے پہلی بار پیدا کیا تھا دوبارہ بھی پیدا کریں گے، یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے، بے شک ہم پورا کرنے والے ہیں۔(قرآن 21: 104)
فزکس کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وقت کی طرح کشش ثقل بھی الٹ ہوسکتی ہے۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ وقت اور کشش ثقل دونوں کے الٹاؤ کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے ۔کشش ثقل کا الٹاؤ اسے کشش کی قوت کی جگہ ایک دافع قوت میں بدل دے گا جس کی وجہ سے زمین پھٹ جائے گی اور پہاڑ الگ ہو جائیں گے اور لال گرم لاوا پگھلا ہوا تانبے کی طرح آسمان کو روشن کر دے گا جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہے ۔
- اور زمین اور پہاڑ اٹھائے جائیں گے پس وہ دونوں ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے ۔(69:14)
کشش ثقل کے الٹنے کی وجہ سے زمین اپنے اندر سمائے ہوے تمام خزانے کو باہر پھینک دے گی اور مکمل طور پر خالی ہو جائے گی. یہ عمل زمین کو مکمل طور ایک کھوکھلے ڈھانچے میں تبدیل کردے گا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔
- اور جب زمین کو پھیلا دیا جائے گا اور جو کچھ اس میں تھا اس کو نکال کر خالی کر دیا جائے گا۔ (قرآن 84: 3-4)
- جس دن اس زمین میں سے اور زمین بدلی جائے گی اور آسمان بدلے جائیں گے، اور سب کے سب ایک زبردست اللہ کے روبرو پیش ہوں گے۔(قرآن 14:48)
- اور تجھ سے پہاڑوں کا حال پوچھتے ہیں تو کہہ دے میرا رب انہیں بالکل اڑا دے گا۔پھر زمین کو چٹیل میدان کر کے چھوڑے گا۔تو اس میں کجی اور ٹیلا نہیں دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ (قرآن 20:105_107)
وقت کے الٹنے کی وجہ سے زمین جیسے جیسے ماضی میں پیچھے سفر کرتی جائے گی توویسے ویسے ماضی میں گزری ہوے لوگ قومیں ایک کے بعد ایک آ جائیں گی ۔لوگوں کے ساتھ ساتھ تمام اقوام کے تمام اچھے اور برے کاموں کو بے نقاب کر دیا جائے گا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے ۔
- اور آپ ہر ایک جماعت کو گھٹنے ٹیکے ہوئے دیکھیں گے، ہر ایک جماعت اپنے نامہٴ اعمال کی طرف بلائی جائے گی، (کہا جائے گا) آج تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔”
وقت پیچھے کی طرف جانے کی وجہ سے تمام لوگوں کو اپنی ماضی کی زندگی دکھائی دے گی کہ وہ اپنی زندگی میں کیا اچھے اور برے اعمال کر چکے ہیں۔تمام لوگوں کا اپنے ہاتھ، پاؤں، منہ اور آنکھوں پر کوئی قابو نہیں رہے گا۔بہت پہلے انجام دینے والے تمام غلط اور اچھے کام ان کی آنکھوں کے سامنے لائے جائیں گے۔ مزید یہ کہ خود ان کے زبان، ہاتھ اور پاؤں خدا کے سامنے ان کے خلاف گواہ بن جائیں گی، اور لوگ اپنے غلط کاموں کا انکار نہیں کرسکیں گے وقت کے الٹنے کی وجہ سے لوگ قبروں سے اٹھ کر واپس اپنی پرانی زندگی میں چلے جائیں گے تا کہ وہ زندہ ہوکر اپنے اعمال کا حساب دے سکیں۔
اس وقت آسمان کے دروازوں کو کھول دیا جائے گا جن سے فرشتے آسمان سے زمین پہ نازل ہوں گے۔آسمان میں دروازوں کا کھلنا بلیک ہولز کی طرح کا ایک منظر ہے.کچھ سائنس دانوں کی رائے ہے کہ خلا اور وقت بلیک ہولز میں الگ الگ ہوسکتے ہیں، جس سے اس کائنات کے دوسری طرف ایک طرح کے دروازوں کے ذریعے اس کائنات میں داخل ہونا ممکن ہے لیکن ہماری اس وقت کی جدید کائنات میں بلیک ہول کا پیچیدہ خم بڑے پیمانے پر اس چیز کو روکتا ہے، جس کی وجہ سے اس کائنات کی کوئی بھی چیز اعلیٰ جہتوں کی طرف منتقل نہیں ہوسکتی۔
سکڑتی ہوئی کائنات کو قرآن پاک میں کچھ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔
- اور آسمان پھٹ جائے گا اور وہ اس دن بودا ہوگا۔ (قرآن 69:16)
آسمان سے ستارے بلکل ہی غائب ہو جائیں گے کیونکہ وہ زمین کی کھوکھلی ساخت کے اندر سے نظر نہیں آئیں گے اس عمل کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے
- پس جب ستارے مٹا دیے جائیں گے۔ (قرآن 77:8)
کشش ثقل کے الٹنے کی وجہ سے زمین کھوکھلی ہوجائے گی اور جس کے باعث اس کے مرکزی آسمان میں ایک طرح کے دروازے کھولنے لگ جائیں گے اور جو ایک حیرت انگیز اور خوف ناک نظاره ہوگا اس وقت ہزاروں فرشتے اپنے کام کو پورا کرنے کے لئے ان دروازوں سے آسمان سے زمین پر اتریں گے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے
- اور جس دن آسمان بادل سے پھٹ جائے گا اور فرشتے بکثرت اتارے جائیں گے۔” (قرآن 25:25)
آخر کار سکڑتی ہوئی کائنات آگ کے ایک گولے میں بدل جائے گی اس عمل کو سائنسدان عظیم پامالی کہتے ہیں ۔اس وقت کے شروع ہونے سے ہر کسی کو جمع کیا جائے گا اور کوئی بھی پیچھے نہیں رہے گا جیسا کہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے ۔
- اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تو زمین کو صاف میدان دیکھے گا اور سب کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے۔ (قرآن 18:47)
جب سب یہ کائنات چھوڑیں گے تو سب کو ایک دوسری جہت میں ایک وسیع میدان میں جمع کیا جائے گا جہاں تمام زمانوں اور جگہوں سے لوگ اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے آئیں گے لیکن یہ کب ہوگا،اس میں کتنی دیر ہے، یہ کسی کو معلوم نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں ہے۔
- آپ سے لوگ قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو اس کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے، اور آپ کو کیا خبر کہ شاید قیامت قریب ہی ہو۔” (قرآن 33:63)
قرآن کریم اس آیات سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قیامت کا وقت کبھی بھی نہیں معلوم ہوگا اور یہ کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔
- اور تجھ سے عذاب جلدی مانگتے ہیں، اور اگر ایک وعدہ مقرر نہ ہوتا تو ان پر عذاب آجاتا، اور البتہ ان پر اچانک آئے گا اور انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ (قرآن 29:53)
- آنے والی قریب آپہنچی۔سوائے اللہ کے اسے کوئی ہٹانے والا نہیں۔ پس کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو۔ (قرآن 57_59:53)
قیامت کے بارے میں سائنسی تحقیق کیا ہے۔؟؟سائنس یہ کہتی ہے کہ جب ہمارے مقامی سست وقت کے ساتھ بہت دور خلا کی پیمائش کی جاتی ہے تو وہ ہمیں تیزی سے پھیلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، اور یہ بات 1998ء میں سائنسدانوں کے دو گروپوں کی طرف سے دریافت کی گئی تھی. وقت کی نوعیت یہ ہے کہ وقت کی سستی کی پیمائش مقامی زمین کے لحاظ سے نہیں دیکھی جاسکتی ہے.اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن کی آغاز کے وقت کسی بھی قسم کو پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی اور یہ کسی بھی وقت آسکتی ہے.صرف خدا جو ہمارے وقت سے باہر ہے قیامت کے دن کے حقیقی وقت کو جانتا ہے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ قیامت کا دن ہم میں سے ہر ایک کے قریب بہت قریب ہے کیونکہ موت کے بعد وقت گزرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔