قیام پاکستان کے سلسلے میں صوبہ پنجاب کے کردار کا جائزہ
پس منظر
قیام پاکستان سے قبل پنجاب آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے بڑا صوبہ تھا ۔ اس میں پاکستان کے دو صوبہ سرحد اور پنجاب اور ہندوستان کے تین صوبے ہریانہ ،ہماچل پردیس اور پنجاب شامل تھے ۔مغلوں کے زوال سے فائدہ اٹھا کہ 1799 ء میں رنجیت سنگھ برسراقتدار آیا ۔ اور سکھ ریاست کے انتشار سے فائدہ اٹھا کر 1849 ء میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا ۔ انگریزوں کو پنجاب کی زرعی پیداوار کپاس میں دلچسپی تھی اس سے ان کے برطانوی کپڑے کے کارخانے چلتے تھے اور یہی کپڑا پنجاب آکر کیا تھا ۔ یہاں سے انگریزوں کو ستے سپاہی ملتے تھے اسی وجہ سے انہوں نے پنجاب کو صنعتی لحاظ سے کمزور رکھا ۔
پنجاب کے رقبہ میں کمی
1901 ء میں انگریزوں نے اپنی انتظامی سہولت کے لئے پنجاب کے چھ مغربی اضلاع کاٹ کر شمال مغربی سرحد کے نام سے نیا صوبہ بنایا ۔
تحریک پاکستان میں دیر سے شمولیت
پنجاب میں مسلمانوں کی تعداد 57.5 فیصد تھی مگر اس صوبے میں مسلم لیگ کو دیر سے پذیرائی ملی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پنجاب کے مسائل بنگال اور دوسرے اقلیتی صوبوں سے بالکل مختلف تھے ۔ سرفضل حسین کی کامیاب سیاست نے انہیں ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں جائز حق دلوا دیا تھا ۔ پنجاب کا جاگیردار انگریز کے مفادات کا محافظ ہونے کے علاوہ حکومت اور عوام کے درمیان رابطے اور ایجنٹ کا کام کرتاتھا لہٰذا پنجاب میں مسلمانوں پر وہ ظلم و ستم نہیں ہو سکتا تھاجو بنگال اور اقلیتی صوبوں میں ہوتا تھا ۔ پنجاب میں جن لوگوں نے تحریک پاکستان میں اہم حصہ لیا ان میں علامہ اقبال، سر فضل حسین ، مولانا ظفر علی خاں : چودھری رحمت علی ، سر محمّد شفیع اور سکند رحیات اہم ہیں ۔
علامہ اقبال کاحصہ
علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے مردہ قوم کو زندہ کیا ۔ انہوں نے عملی سیاست میں بھی حصہ لیا ۔ وہ معاہدہ لکھنؤ کے مخالف تھے کیونکہ اس سے پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو گئی تھی ۔ 1926 ء میں وہ لاہور سے پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔ جب دہلی تجاویز کی وجہ سے مسلم لیگ کلکتہ لیگ اور شفیع لیگ میں بٹ گئی تو علامہ اقبال شفیع لیگ کے جزل سیکرٹری بن گئے ۔ انہوں نے نہرو رپورٹ کے رد عمل میں مسلم لیگ کو متحد کرنے میں مدد دی اور قائداعظم کے چودہ نکات کی بھرپور حمایت کی ۔
علیحدہ وطن کا تصور
علامہ اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے 29 دسمبر 1930 ء کو مسلمانوں کے لئے خطبہ الہ آباد کے زریعے الگ وطن کے قیام کا تصور دیا ۔
گول میز کانفرنسوں میں شرکت
علامہ اقبال نے 1931 ء اور 1932 ء میں دوسری اور تیسری گول میز کانفرنسوں میں شرکت کی جہاں انہوں نے متحدہ قومیت کے تصور کی سختی سے مخالفت کی ۔
قائداعظم کو لندن سے بلانا
1930 ء میں قائد اعظم مسلمانوں کے اندرونی انتشار سے مایوس ہو کر لندن میں رہائش پذیر ہو گئے ۔ علامہ اقبال نے انہیں لکھا " آج ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان ہیں ان کی طرف قوم کی رہنمائی کے لئے دیکھ رہی ہے ۔ علامہ اقبال کی درخواست پر قائداعظم واپس ہندوستان آے اور مسلم لیگ کی تنظیم نو کی ۔
سر فضل حسین _پنجاب میں مسلم لیگ کا قیام
دوسری بڑی شخصیت جنہوں نے پنجاب کی سیاست پر ان مٹ نقوش چھوڑے وہ سر فضل حسین تھے ۔ وہ ابتدا میں مسلم لیگ کے سرگرم رکن تھے ۔ انہوں نے 1967 ء میں پنجاب میں مسلم لیگ قائم کی ۔
مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ
سر فضل حسین پنجاب قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر 1921 ء سے 1926 ء تک پنجاب کے وزیر تعلیم رہے ۔ اس دور میں انہوں نے پنجاب کے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کیا مسلمانوں کا تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں حصہ مقرر کرایا ۔ بعد میں انہوں نے پنجاب میں اپنی الگ پارٹی بنائی جس کا نام یونینسٹ پارٹی تھا ۔ قائد اعظم کی دعوت کے باوجود اس پارٹی نے مسلم لیگ سے اتحاد نہیں کیا لیکن پنجاب کے مسلمانوں کو یقین " بیدار کیا اور اس بیداری سے 1946 ء کے انتخاب میں مسلم لیگ سے فائده اٹھایا۔
پس منظر
قیام پاکستان سے قبل پنجاب آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے بڑا صوبہ تھا ۔ اس میں پاکستان کے دو صوبہ سرحد اور پنجاب اور ہندوستان کے تین صوبے ہریانہ ،ہماچل پردیس اور پنجاب شامل تھے ۔مغلوں کے زوال سے فائدہ اٹھا کہ 1799 ء میں رنجیت سنگھ برسراقتدار آیا ۔ اور سکھ ریاست کے انتشار سے فائدہ اٹھا کر 1849 ء میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا ۔ انگریزوں کو پنجاب کی زرعی پیداوار کپاس میں دلچسپی تھی اس سے ان کے برطانوی کپڑے کے کارخانے چلتے تھے اور یہی کپڑا پنجاب آکر کیا تھا ۔ یہاں سے انگریزوں کو ستے سپاہی ملتے تھے اسی وجہ سے انہوں نے پنجاب کو صنعتی لحاظ سے کمزور رکھا ۔
پنجاب کے رقبہ میں کمی
1901 ء میں انگریزوں نے اپنی انتظامی سہولت کے لئے پنجاب کے چھ مغربی اضلاع کاٹ کر شمال مغربی سرحد کے نام سے نیا صوبہ بنایا ۔
تحریک پاکستان میں دیر سے شمولیت
پنجاب میں مسلمانوں کی تعداد 57.5 فیصد تھی مگر اس صوبے میں مسلم لیگ کو دیر سے پذیرائی ملی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پنجاب کے مسائل بنگال اور دوسرے اقلیتی صوبوں سے بالکل مختلف تھے ۔ سرفضل حسین کی کامیاب سیاست نے انہیں ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں جائز حق دلوا دیا تھا ۔ پنجاب کا جاگیردار انگریز کے مفادات کا محافظ ہونے کے علاوہ حکومت اور عوام کے درمیان رابطے اور ایجنٹ کا کام کرتاتھا لہٰذا پنجاب میں مسلمانوں پر وہ ظلم و ستم نہیں ہو سکتا تھاجو بنگال اور اقلیتی صوبوں میں ہوتا تھا ۔ پنجاب میں جن لوگوں نے تحریک پاکستان میں اہم حصہ لیا ان میں علامہ اقبال، سر فضل حسین ، مولانا ظفر علی خاں : چودھری رحمت علی ، سر محمّد شفیع اور سکند رحیات اہم ہیں ۔
علامہ اقبال کاحصہ
علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے مردہ قوم کو زندہ کیا ۔ انہوں نے عملی سیاست میں بھی حصہ لیا ۔ وہ معاہدہ لکھنؤ کے مخالف تھے کیونکہ اس سے پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو گئی تھی ۔ 1926 ء میں وہ لاہور سے پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔ جب دہلی تجاویز کی وجہ سے مسلم لیگ کلکتہ لیگ اور شفیع لیگ میں بٹ گئی تو علامہ اقبال شفیع لیگ کے جزل سیکرٹری بن گئے ۔ انہوں نے نہرو رپورٹ کے رد عمل میں مسلم لیگ کو متحد کرنے میں مدد دی اور قائداعظم کے چودہ نکات کی بھرپور حمایت کی ۔
علیحدہ وطن کا تصور
علامہ اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے 29 دسمبر 1930 ء کو مسلمانوں کے لئے خطبہ الہ آباد کے زریعے الگ وطن کے قیام کا تصور دیا ۔
گول میز کانفرنسوں میں شرکت
علامہ اقبال نے 1931 ء اور 1932 ء میں دوسری اور تیسری گول میز کانفرنسوں میں شرکت کی جہاں انہوں نے متحدہ قومیت کے تصور کی سختی سے مخالفت کی ۔
قائداعظم کو لندن سے بلانا
1930 ء میں قائد اعظم مسلمانوں کے اندرونی انتشار سے مایوس ہو کر لندن میں رہائش پذیر ہو گئے ۔ علامہ اقبال نے انہیں لکھا " آج ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان ہیں ان کی طرف قوم کی رہنمائی کے لئے دیکھ رہی ہے ۔ علامہ اقبال کی درخواست پر قائداعظم واپس ہندوستان آے اور مسلم لیگ کی تنظیم نو کی ۔
سر فضل حسین _پنجاب میں مسلم لیگ کا قیام
دوسری بڑی شخصیت جنہوں نے پنجاب کی سیاست پر ان مٹ نقوش چھوڑے وہ سر فضل حسین تھے ۔ وہ ابتدا میں مسلم لیگ کے سرگرم رکن تھے ۔ انہوں نے 1967 ء میں پنجاب میں مسلم لیگ قائم کی ۔
مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ
سر فضل حسین پنجاب قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر 1921 ء سے 1926 ء تک پنجاب کے وزیر تعلیم رہے ۔ اس دور میں انہوں نے پنجاب کے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کیا مسلمانوں کا تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں حصہ مقرر کرایا ۔ بعد میں انہوں نے پنجاب میں اپنی الگ پارٹی بنائی جس کا نام یونینسٹ پارٹی تھا ۔ قائد اعظم کی دعوت کے باوجود اس پارٹی نے مسلم لیگ سے اتحاد نہیں کیا لیکن پنجاب کے مسلمانوں کو یقین " بیدار کیا اور اس بیداری سے 1946 ء کے انتخاب میں مسلم لیگ سے فائده اٹھایا۔
مولانا ظفر علی خاں
برصغیر کی سیای آزادی اور تحریک پاکستان میں مولانا ظفر علی خاں کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کے اخبار زمیندار نے مسلمانوں کی سیاسی بیداری میں اہم کردار ادا کیا ۔ وہ 1937 ء کے انتخاب میں کامیاب ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور اس کے بعد 1945 ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر مرکزی اسمبلی کے منتخب ہوئے اور قیام پاکستان میں مخلص سپاہی کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔ قرار داد لاہور کی پنجاب سے تائید کرنے والوں میں مولانا ظفر علی خاں بھی تھے ۔
مسلم لیگ کے قیام میں حصہ
مولانا ظفر علی خان 30 دسمبر 1906 ء کے اس ڈھاکہ اجلاس میں موجود تھے جس میں مسلم لیگ قائم کی گئی اور نئی سیاسی جماعت کی قرارداد کی تائید کرنے والوں میں ان کا نام بھی تھا ۔
چوہدری رحمت علی
پنجاب کے ضلع ہوشیار پور سے تعلق رکھنے والے چوہدری رحمت علی کا ایک پاکستان میں حصہ تھوڑا سہی لیکن لافانی ہے ۔ 28 جنوری 1933 ء کو انہوں نے ایک پمفلٹ Now or Never ( اب یا کبھی نہیں ) شائع کیا جس کے ذریعے اسلامیان ہند کو پہلی بار لفظ پاکستان سے آگاہی ہوئی۔
قرارداد لاہور
قائد اعظم پنجاب کی اہمیت سے واقف تھے اسی وجہ سے لاہور کو تحریک پاکستان کے سب سے اہم اعلان کے لئے منتخب کیا اس قرار داد میں مسلم لیگ نے دو ٹوک الفاظ میں علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا ۔
پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن
پنجاب میں یونینسٹ پارٹی بڑی طاقتور تھی اور مسلم لیگ کے قدم نہیں جمنے دیتی تھی1937ء میں پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور میں قائم ہوئی اس تنظیم نے مسلم لیگ کا نام گلی گلی کوچے کوچے اور دیہات دیہات پہنچایا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1937 ء کے انتخاب میں پنجاب سے صرف دو نشستیں جیتنے والی مسلم لیگ 1946 ء میں پنجاب اسمبلی کی 86 نشستوں میں سے 79 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی ۔
عوامی تحریک
مسلم لیگ کی شاندار کامیابی کے باوجود انگریز گورنر گیلسی نے کانگریس اور اکالی دل کی مدد سے خضر حیات کی یونین وزارت قائم کر دی پنجاب کے عوام نے ایسی تحریک چلائی کہ خضرحیات ٹوانہ کو مستعفی ہونا پڑا ۔ پنجاب میں گورنر راج قائم کر کے مسلم لیگ کو دبانے کی کوشش کی گئی پنجاب میں قتل و غارت کا بازار گرم ہوا اسلامیہ کالج کے طالب علم محمّد مالک شہید ہوئے اور ایک لڑکی فاطمہ صغری نے کمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاہور کے سول سیکرٹریٹ سے برطانوی جھنڈا اتار کر سبز ہلالی پرچم لہرادیا ۔
پنجاب کی تقسیم
ہندو اور انگریز کے تمام حربے ناکام ہوئے اور 14 اگست 1947 ء کوپاکستان قائم ہو گیا ۔ پنجاب کو بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب میں تقسیم کر دیا گیا ۔ ریڈ کلف نے پنجاب کی تقسیم میں سخت ناانصافی کی ۔ ہندوستان کو کشمیر میں داخلے کا راستہ دینے کے لئے گورداسپور اور بٹالہ کی مسلم اکثریت کی تحصیلیں بھی ہندوستان کو دے دیں ۔ اور اس طرح پاکستان کو مسئلہ کشمیر میں الجھادیا ۔
قیام پاکستان کے سلسلہ میں صوبہ بلوچستان کے کردار کا جائزہ
پس منظر
641 ء بہ عہد فاروقی مسلمان ایران کو فتح کرتے ہوئے مکران تک پہنچ گئے ۔ انہوں نے بلوچستان کے علاقہ خضدار کو فکر کے اسے اپنا مرکز بنا کر اسلام کی روشنی سے منور کیا ۔ عہد سلاطین اور عہد مغلیہ میں قبائلی نظام کی وجہ سے موجودہ بلوچستان کا علاقہ برائے نام ہی مرکز کے ماتحت رہا
انگریزوں کا قبضہ
1849 ء میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا اور اس کے بعد سنڈے من نے ڈیرہ غازی خان کی طرف سے بلوچستان پر قبضہ کا آغاز کیا اور 1877 ء کو نو سال کی مدت میں بلوچستان کے تقریبا ادھے حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔
انتظامی حالت
برطانوی دور میں بلوچستان دو حصوں برطانوی بلوچستان اور ریاستی بلوچستان میں تقسیم تھا ۔ برطانوی بلوچستان مرکز کے ماتحت تھا اور ریاستیں ایک حد تک اندرونی معاملات میں آزاد تھیں ۔
عیسائیت کا حملہ
انگریزوں نے بلوچستان کو عیسائی بنانے کی کوشش کی لیکن علامہ درخانی ریسانی ، مولانا محمد عمر دین پوری اور ملا حضور بخش نے عیسائی پادریوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ ملا حضور بخش نے قرآن عظیم کا بلوچی میں ترجمہ کر کے اسلام کی روشنی مزید پھیلائی ۔
تحریک پاکستان کی ابتدا
بلوچستان 1929 ء میں مسلم لیگ کی توجہ کا مرکز بنا جب قائداعظم نے بلوچستان کی صوبائی خود مختاری کو اپنے چودہ نکات میں شامل کی ۔ بلوچستان کے رہنما یوسف مگسی نے یہاں ہونے والے مظالم کے خلاف کھل کر لکھنا اور بولنا شروع کیا ۔
مسلم لیگ کا قیام
1937ء میں مسلم لیگ کی اسٹیج سے لکھنؤ کے مقام پر بلوچستان کی صوباتی خودکاری کی قرار داد منظور کی گئی ۔ بلوچستان کے لوگ اس سے بڑے متاثر ہوئے ۔ بمبئی میں قائداعظم سے ملاقات کرکے 1939 ء میں قاضی محمّد عیسیٰ نے بلوچستان میں مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی ۔
قرار ادا لاہور
23 مارچ 1940 ، کو قائد اعظم کی زیرصدارت لاہور کے منٹو پارک میں مسلمانوں لئے الگ وطن کی قرار داد منظور ہوئی ۔ اس اجلاس میں ملک جان محمد نے انتظامی امور میں حصہ لیا ۔ اور قاضی محمد عیسی نے پر زور الفاظ میں قرارداد لاہور کی حمایت کی ۔ اور کہا کہ کل سردار اورنگ زیب نے کہا تھا کہ وہ درہ خیبر کی دربانی کریں گے میں اعلان کرتا ہوں کہ ہم اس سے چھوٹے دروازے مینی بولان کی دربانی کریں گے ۔
مسلم لیگی رہنماؤں کے دورے
اپریل 1940 ء میں تحریک پاکستان کے ایک عظیم رہنما اور عالم دین مولانا عبدالحامد بدایونی نے بلوچستان کا دورہ کیا اور مسلم لیگ کا پیغام بلوچستان کے عوام کو پہنچایا اس کے بعد جولائی 1940 ء کو لیاقت علی خاں نے بلوچستان کا دورہ کیا ۔ انہوں نے صوبائی مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کی جس میں قاضی محمد عیسی نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم مسلمان اور مسلم لیگی ہیں اور ہم زندگی بھر مسلمان اور مسلم لیگی رہیں گے ۔
قائد اعظم کے دورے
قائد اعظم نے جون 1943 ء اور ستمبر 1945 ء میں دو دفعہ بلوچستان کا دورہ کیا ۔ اور بلوچستان کے لوگوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کیا ۔ پہلے دورے کے موقع پر قاضی عیسی نے قائداعظم کو احمد شاہ ابدالی کی تاریخی تلوار پیش کی ۔ اس پر برلن ریڈیو نے خبر نشر کی کہ اہل بلوچستان نے قائداعظم کو ایک تلوار دے کر استدعا کی ہے کہ وہ اس تلوار کو ہاتھ میں لے کر انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دے ۔
چاندی کی سلاخوں کا تحفہ
دوسرے دورے کے دوران قائداعظم نے اہل بلوچستان سے چندے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ مجھے چاندی کی گولیوں کی ضرورت ہے ۔ 19۔ اکتوبر 1945 ء کو قائد اعظم حیران رو گئے جب چاندی کی گولیوں کی بجائے کسی نامعلوم بلوچی نے چاندی کی دو سلاخیں دیں جن کا وزن ساڑھے پانچ بزار تولے تھا ۔
مرکزی نشست کا انتخاب
1945 ء میں مسلم لیگ کی کوششوں سے اہل بلوچستان کو مرکزی اسمبلی میں ایک نمائندہ بھجنے کی اجازت مل گئی ۔ اس کا انتخاب کوئٹہ میونسپلٹی کے 24 ارکان اور شاہی جرگے کے 52- افراد کو کرنا تھا ۔ مسلم لیگ کی طرف سے نواب محمد خاں جوگزئی اور کانگریس کی طرف سے عبد الصمد اچکزئی نے انتخاب میں حصہ لیا ۔ کانگرس کے نمائندہ کو صرف دس ووٹ ملے اور نواب محمد خاں جوگزئی واضح اکثریت سے کامیاب ہو گئے ۔
کامیابی کا اثر
اس کامیابی کا اہل بلوچستان پر بڑا اچھا اثر ہوا ۔ ان کے حوصلے بلند ہو گئے انہیں یقین ہو گیا کہ وہ کانگریس اور قلات نیشنل پارٹی کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں ۔
انگریز اور ہندو کے ہتھکنڈے
انگریزوں نے اپنے پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریے اہل بلوچستان کو بتایا کہ وہ برما کی طرح بلوچستان کو ایک الگ حیثیت دینا چاہتے ہیں وہ ہندوستان سے تمام فوجیں ہٹا کر بلوچستان لے آئیں گے تاکہ یہاں سے روس کا مقابلہ کیا جا سکے دوسری طرف قلات کے حکمران کو آزاد ریاست کے قیام کا جھانسہ دیکر مسلم لیگ کے خلاف اکسایا گیا ۔ جواہر لال نہرو نے محمد خاں جوگیزئی کو مسلم لیگ سے توڑنے کے لئے 18 کروڑ روپیہ دینے کا وعدہ کیا لیکن انہوں نے اسے حقارت سے ٹھکرادیا ۔
قلات نیشنل پارٹی کا پروپیگنڈہ
قلات نیشنل پارٹی جو کانگریس کی ذیلی تنظیم تھی مسلسل یہ پروپیگنڈہ کر رہی تھی کہ پاکستان مالی لحاظ سے بہت کمزور ہو گا اور وہ بلوچستان کا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا ۔ یہ پاکستان نہیں فاقستان ہو گا ۔ بلوچستان کے لوگوں کو پنجابی کی غلائی اور قلات کی غلامی سے بھی ڈرایا جارہا تھا ۔ جو پاکستان بننے کے بعد ممکن ہو سکتی تھی ۔
تقسیم ہند کا اعلان
3 جون 1947 ء کو لارڈ مونٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ اگست 1947 ء تک ہندوستان کو دو آزاد ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے گا ۔ سرحد سلہٹ اور بلوچستان میں ریفرنڈم کرایا جائے گا کہ ان علاقوں کے لوگ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں ۔
کانگریس کی چالاکی
کانگریس کا منصوبہ یہ تھا کہ پہلے بلوچستان میں ریفرنڈم کرایا جائے ۔ یہاں شاہی جرگے کے اور میونسپلٹی کے صرف 76- افراد کو ووٹ ڈالنا ہے اور ان 76- افراد کو قابو کرنا آسان ہو گا ۔ بلوچستان کی کامیابی سرحد کے ریفرنڈم پر اثر ڈالے گی ۔
ہندو انگریز گٹھ جوڑ
بلوچستان میں ریفرنڈم کی تاریخ 29 جون 1947 ء مقرر کی گئی ۔ مسلم لیگ نے دن رات ایک کر کے 28 جون تک سوائے پانچ سرداروں کے تمام کو پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کر لیا ۔ اس کامیابی سے ایجنٹ برائے گورنر جزل اور کانگرسی بہت پریشان ہوئے ۔ انہوں نے ریفرنڈم کی تاریخ میں ایک دن کا اضافہ یہ کہہ کر کیا کہ 29 جون کو صرف مونٹ بیٹن کا اعلان پڑھ کر سنایا جائے گا ۔ مقصد یہ تھا کہ کانگریس کو جوڑتوڑ کے لئے مزید ایک دن مل جائے ۔
چالاکی کا جواب
نئے اعلان کے مطابق 29 جون کو ایجنٹ برائے گورنر جزل جیفرے کوئٹہ ٹاؤن ہال میں لوگوں کے اجتماع میں تین جون کا اعلان پڑھ کر سنانے لگے ۔ اعلان ختم ہونے سے پہلے محمد خان جوگیزئی نے کہا کہ ہم یہ اعلان پڑھ چکے ہیں ہمیں فیصلہ کرنے کے لئے مزید وقت کی ضرورت نہیں کیونکہ شاہی جرگہ کے سرداروں نے پاکستان کی حمایت کا فیصلہ کرلیا ہے جو حضرات اس فیصلے کے خلاف ہیں وہ ایک طرف ہو جائیں ایجنٹٹ برائے گورنر جل نے مجبورا " اردو میں کہا ” اچھا ہم وائسرائے کو تار دے دیں گے کہ شادی جرگہ کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہے سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔ نسیم حجازی نے ہال سے باہر آکر پورے زور سے پاکستان زندہ باد کانعرہ لگایا ۔ اس طرح بلوچستان پاکستان کا حصہ بن گیا ۔
برطانوی دور میں بلوچستان دو حصوں برطانوی بلوچستان اور ریاستی بلوچستان میں تقسیم تھا ۔ برطانوی بلوچستان مرکز کے ماتحت تھا اور ریاستیں ایک حد تک اندرونی معاملات میں آزاد تھیں ۔
عیسائیت کا حملہ
انگریزوں نے بلوچستان کو عیسائی بنانے کی کوشش کی لیکن علامہ درخانی ریسانی ، مولانا محمد عمر دین پوری اور ملا حضور بخش نے عیسائی پادریوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ ملا حضور بخش نے قرآن عظیم کا بلوچی میں ترجمہ کر کے اسلام کی روشنی مزید پھیلائی ۔
تحریک پاکستان کی ابتدا
بلوچستان 1929 ء میں مسلم لیگ کی توجہ کا مرکز بنا جب قائداعظم نے بلوچستان کی صوبائی خود مختاری کو اپنے چودہ نکات میں شامل کی ۔ بلوچستان کے رہنما یوسف مگسی نے یہاں ہونے والے مظالم کے خلاف کھل کر لکھنا اور بولنا شروع کیا ۔
مسلم لیگ کا قیام
1937ء میں مسلم لیگ کی اسٹیج سے لکھنؤ کے مقام پر بلوچستان کی صوباتی خودکاری کی قرار داد منظور کی گئی ۔ بلوچستان کے لوگ اس سے بڑے متاثر ہوئے ۔ بمبئی میں قائداعظم سے ملاقات کرکے 1939 ء میں قاضی محمّد عیسیٰ نے بلوچستان میں مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی ۔
قرار ادا لاہور
23 مارچ 1940 ، کو قائد اعظم کی زیرصدارت لاہور کے منٹو پارک میں مسلمانوں لئے الگ وطن کی قرار داد منظور ہوئی ۔ اس اجلاس میں ملک جان محمد نے انتظامی امور میں حصہ لیا ۔ اور قاضی محمد عیسی نے پر زور الفاظ میں قرارداد لاہور کی حمایت کی ۔ اور کہا کہ کل سردار اورنگ زیب نے کہا تھا کہ وہ درہ خیبر کی دربانی کریں گے میں اعلان کرتا ہوں کہ ہم اس سے چھوٹے دروازے مینی بولان کی دربانی کریں گے ۔
مسلم لیگی رہنماؤں کے دورے
اپریل 1940 ء میں تحریک پاکستان کے ایک عظیم رہنما اور عالم دین مولانا عبدالحامد بدایونی نے بلوچستان کا دورہ کیا اور مسلم لیگ کا پیغام بلوچستان کے عوام کو پہنچایا اس کے بعد جولائی 1940 ء کو لیاقت علی خاں نے بلوچستان کا دورہ کیا ۔ انہوں نے صوبائی مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کی جس میں قاضی محمد عیسی نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم مسلمان اور مسلم لیگی ہیں اور ہم زندگی بھر مسلمان اور مسلم لیگی رہیں گے ۔
قائد اعظم کے دورے
قائد اعظم نے جون 1943 ء اور ستمبر 1945 ء میں دو دفعہ بلوچستان کا دورہ کیا ۔ اور بلوچستان کے لوگوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کیا ۔ پہلے دورے کے موقع پر قاضی عیسی نے قائداعظم کو احمد شاہ ابدالی کی تاریخی تلوار پیش کی ۔ اس پر برلن ریڈیو نے خبر نشر کی کہ اہل بلوچستان نے قائداعظم کو ایک تلوار دے کر استدعا کی ہے کہ وہ اس تلوار کو ہاتھ میں لے کر انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دے ۔
چاندی کی سلاخوں کا تحفہ
دوسرے دورے کے دوران قائداعظم نے اہل بلوچستان سے چندے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ مجھے چاندی کی گولیوں کی ضرورت ہے ۔ 19۔ اکتوبر 1945 ء کو قائد اعظم حیران رو گئے جب چاندی کی گولیوں کی بجائے کسی نامعلوم بلوچی نے چاندی کی دو سلاخیں دیں جن کا وزن ساڑھے پانچ بزار تولے تھا ۔
مرکزی نشست کا انتخاب
1945 ء میں مسلم لیگ کی کوششوں سے اہل بلوچستان کو مرکزی اسمبلی میں ایک نمائندہ بھجنے کی اجازت مل گئی ۔ اس کا انتخاب کوئٹہ میونسپلٹی کے 24 ارکان اور شاہی جرگے کے 52- افراد کو کرنا تھا ۔ مسلم لیگ کی طرف سے نواب محمد خاں جوگزئی اور کانگریس کی طرف سے عبد الصمد اچکزئی نے انتخاب میں حصہ لیا ۔ کانگرس کے نمائندہ کو صرف دس ووٹ ملے اور نواب محمد خاں جوگزئی واضح اکثریت سے کامیاب ہو گئے ۔
کامیابی کا اثر
اس کامیابی کا اہل بلوچستان پر بڑا اچھا اثر ہوا ۔ ان کے حوصلے بلند ہو گئے انہیں یقین ہو گیا کہ وہ کانگریس اور قلات نیشنل پارٹی کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں ۔
انگریز اور ہندو کے ہتھکنڈے
انگریزوں نے اپنے پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریے اہل بلوچستان کو بتایا کہ وہ برما کی طرح بلوچستان کو ایک الگ حیثیت دینا چاہتے ہیں وہ ہندوستان سے تمام فوجیں ہٹا کر بلوچستان لے آئیں گے تاکہ یہاں سے روس کا مقابلہ کیا جا سکے دوسری طرف قلات کے حکمران کو آزاد ریاست کے قیام کا جھانسہ دیکر مسلم لیگ کے خلاف اکسایا گیا ۔ جواہر لال نہرو نے محمد خاں جوگیزئی کو مسلم لیگ سے توڑنے کے لئے 18 کروڑ روپیہ دینے کا وعدہ کیا لیکن انہوں نے اسے حقارت سے ٹھکرادیا ۔
قلات نیشنل پارٹی کا پروپیگنڈہ
قلات نیشنل پارٹی جو کانگریس کی ذیلی تنظیم تھی مسلسل یہ پروپیگنڈہ کر رہی تھی کہ پاکستان مالی لحاظ سے بہت کمزور ہو گا اور وہ بلوچستان کا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا ۔ یہ پاکستان نہیں فاقستان ہو گا ۔ بلوچستان کے لوگوں کو پنجابی کی غلائی اور قلات کی غلامی سے بھی ڈرایا جارہا تھا ۔ جو پاکستان بننے کے بعد ممکن ہو سکتی تھی ۔
تقسیم ہند کا اعلان
3 جون 1947 ء کو لارڈ مونٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ اگست 1947 ء تک ہندوستان کو دو آزاد ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے گا ۔ سرحد سلہٹ اور بلوچستان میں ریفرنڈم کرایا جائے گا کہ ان علاقوں کے لوگ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں ۔
کانگریس کی چالاکی
کانگریس کا منصوبہ یہ تھا کہ پہلے بلوچستان میں ریفرنڈم کرایا جائے ۔ یہاں شاہی جرگے کے اور میونسپلٹی کے صرف 76- افراد کو ووٹ ڈالنا ہے اور ان 76- افراد کو قابو کرنا آسان ہو گا ۔ بلوچستان کی کامیابی سرحد کے ریفرنڈم پر اثر ڈالے گی ۔
ہندو انگریز گٹھ جوڑ
بلوچستان میں ریفرنڈم کی تاریخ 29 جون 1947 ء مقرر کی گئی ۔ مسلم لیگ نے دن رات ایک کر کے 28 جون تک سوائے پانچ سرداروں کے تمام کو پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کر لیا ۔ اس کامیابی سے ایجنٹ برائے گورنر جزل اور کانگرسی بہت پریشان ہوئے ۔ انہوں نے ریفرنڈم کی تاریخ میں ایک دن کا اضافہ یہ کہہ کر کیا کہ 29 جون کو صرف مونٹ بیٹن کا اعلان پڑھ کر سنایا جائے گا ۔ مقصد یہ تھا کہ کانگریس کو جوڑتوڑ کے لئے مزید ایک دن مل جائے ۔
چالاکی کا جواب
نئے اعلان کے مطابق 29 جون کو ایجنٹ برائے گورنر جزل جیفرے کوئٹہ ٹاؤن ہال میں لوگوں کے اجتماع میں تین جون کا اعلان پڑھ کر سنانے لگے ۔ اعلان ختم ہونے سے پہلے محمد خان جوگیزئی نے کہا کہ ہم یہ اعلان پڑھ چکے ہیں ہمیں فیصلہ کرنے کے لئے مزید وقت کی ضرورت نہیں کیونکہ شاہی جرگہ کے سرداروں نے پاکستان کی حمایت کا فیصلہ کرلیا ہے جو حضرات اس فیصلے کے خلاف ہیں وہ ایک طرف ہو جائیں ایجنٹٹ برائے گورنر جل نے مجبورا " اردو میں کہا ” اچھا ہم وائسرائے کو تار دے دیں گے کہ شادی جرگہ کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہے سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔ نسیم حجازی نے ہال سے باہر آکر پورے زور سے پاکستان زندہ باد کانعرہ لگایا ۔ اس طرح بلوچستان پاکستان کا حصہ بن گیا ۔