صبر و استقلال مفہوم
صبر کے لغوی معنی روکنے اور نفس کو ناپسندیدہ باتوں سے باز رکھنے کے ہیں ۔استقلال کے لغوی معنی قلیل اور بے مقدار سمجھا جانا ہے ۔عام گفتگو میں دونوں لفظ اکھٹے استعمال ہوتے ہیں اور ایک ہی معنی میں بولے جاتے ہیں۔ صبرواستقلال کا شرعی مفہوم یہ ہے کہ انسان مصیبت وابتلا اور اضطراب و گھبراہٹ میں ثابت قدم رہے۔ ہمیشہ دلجمعی ،استقلال ،مضبوطی ،پامروی ، اخلاقی جرات اور ثابت قدمی کے ساتھ عمل پہیم جاری رکھیں ۔صبر کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے کہ کسی معاملے میں بے اختیار ہو اور انتقام نہ لے سکتا ہو تو مجبورا خاموشی اختیار کرلے اور کنارہ کش ہو جائے بلکہ صبر و استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ تمام حالات کا مقابلہ کریں ۔قرآن پاک میں یہ لفظ ثابت قدمی اور استقامت کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے ۔تاہم حالات کے تغیر سے اس کے مفہوم میں وسعت اور کہیں کہیں ذرا ذرا فرق بھی پیدا کیا گیا ہے
جو حسب ذیل ہے
- ہر قسم کے تکلیف اٹھا کر اور اپنے مقصد پر جم کر کامیابی کے وقت کا انتظار کرنا جیسا کہ رسول ﷺ نے کیا ۔
- منزل و مقصود کی راہ میں جو مشکلات اور خطرے پیش آئیں ،دشمن جو تکالیف پہنچائی اور مخالفین جو طعن و طنز کریں ان میں سے کسی چیز کو خاطر میں نہ لایا جائے نہ صرف یہ کہ مخالفین اس طعن و طنز کا دھیان نہ کیا جائے بلکہ اس کے جواب میں ان سے لطف و مروت برتا جائے ۔ان سے بد دل ہونے کی بجائے عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا جائے
- مصائب و مشکلات میں اضطراب و بے قراری نہ ہو بلکہ انہیں اللہ کا حکم مصلیحت سمجھ کر خوشی خوشی جھیلا چائے اور یقین رکھا جائے کہ جب وقت آئے گا تو اللہ تعالی اپنی رحمت سے خود انہیں دور فرما دے گا ۔
- لڑائی کی صورت میں میدان جنگ میں بہادری، استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جائے ۔قرآن مجید نے کمزور اور قلیل تعداد مسلمانوں کی کامیابی کی شرط صبر و استقامت اور توکل کو قرار دیا ہے ۔
- برائی کرنے والے کی برائی کو نظر انداز کیا جائے۔ بدخواہی سے پیش آنے والوں اور تکلیف دینے والوں کے قصور کو معاف کیا جائے۔ تحمل اور برداشت میں اخلاقی دکھائی جائے یہ صبر کمزور دشمن کے خوف یا کسی اور سے نہ ہو بلکہ صرف خدا کے لئے ہو ۔
صبر و استقلال اور اسوہ حسنہ
حضور ﷺ صبر و استقلال کا کوہ گراں تھے ۔راہ حق اور اعلان توحید میں جس قدر شدید مصائب و مشکلات سے آپ ﷺ کو دوچار کیا گیا اس کی نظیر تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی ۔آپ ﷺ یتیم پیدا ہوئے ،اعلان نبوت فرماتے ہی اپنوں اور غیروں نے شرافت کو بلائے طاق رکھتے ہوئے مخالفت میں ہر ہحد پھلانگ لی ۔ساتھیوں کو اذیت ناک سزائیں بھی دی گی ۔آپ ﷺ کو تین سال تک شعیب ابی طالب جیسی حبس بے جا میں رکھا گیا ۔مکہ سے نکالا گیا، زہر دلوایا گیا تقریبا چار درجن جنگ مسلط کی گئی الغرض نبوت کے پورے 23 سال کے عرصے میں ایک پل بھی حضورﷺ کو چین سے نہ بیٹھنے دیا گیا۔ تمام مسلمان پر ہر قسم کے مظالم روا رکھے گئے مگر آپﷺ نے تمام حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا صبر و استقلال کا بھرپور مظاہرہ کیا کبھی بے صبری کا ثبوت نہ دیا ۔کبھی کسی کا گلہ شکوہ نہیں کیا عزم و استقامت سے اپنے مقدس مشن میں لگے رہے ہیں۔ کامیابی ہوئی مکہ فتح ہوا اور سارا عرب دارالاسلام بن گیا ۔
مصائب و مشکلات میں اگر آپ ﷺ کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی تو بے پایاں کامیابی میں بھی غروروتکبر اور انتقام نے پاس سے گزر کر نہ دیکھا ۔پہلے صبر واستقلال تھا اب شکر الہی حدود سے تجاوز نہ پہلے تھا نہ اب ۔
علامہ شبلی نعمانی کہتے ہیں
ابتدا سے انتہا تک اسلام کا ایک کارنامہ حضور ﷺ کے عزم و استقلال کا مظہر اتم ہے ۔عرب کے قبرستان میں ایک شخص تنہا کھڑا ہوتا ہے ،بے یارومددگار دعوت حق کی صدائیں بلند کرتا ہے ۔ریگستان عرب کا زرہ زرہ اس کی مخالفت میں پہاڑ بن کر سامنے آتا ہے لیکن وقار نبوت اور عزم ربانی سے ٹھوکر کھا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے اور مخالفوں کی تمام قوت اس کے سامنے چور چور ہو جاتی ہے ۔
دنیا سکندر و نپولین کے استقلال کی تعریف کرتی ہے۔ لیکن کہ حضور ﷺ کے عزم سے ان کو کوئی نسبت ہے ؟ ایک لاکھ فوج کے بل بوتے پر اگر نپولین نے پہاڑ کو عبور کر لینے کا یقین ظاہر کیا تھا تو کون سی بڑی اچنبھے کی بات تھی ۔حضورﷺ نے ایسی مہییب فوج کے بغیر انصار و مہاجرین کی قلیل تعداد کے ساتھ مصائب و مشکلات کی گھاٹیوں اور فلک پیما پہاڑیوں کو جس وثوق کو و اذعان کے ساتھ عبور کر کے دکھایا اس نے نپولین اور سکندر کے عزم و فتوحات کو کیا تعلق
ہوگا کسی دیوار کے سائے کے تلے میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
مکہ میں روسائے قریش جب ہر قسم کی تدبیروں سے تھک کر حضور ﷺ کے صبر و استقلال کو شکست نہ دے سکے تو انھوں نے آپﷺ کے سامنے حکومت کا تخت، زیور جواہر کا خزانہ اور حسن کی دولت پیش کیں ۔ان میں سے ہر چیز بہادر سے بہادر انسان کے قدم ڈگمگا دینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن حضور ﷺ نے ان پیشکش کو ذلت سے ساتھ ٹھکرا دیا ۔اور آخر کار وہ صبر آزما اور مشکل وقت آگیا جب آخری ہمدم و مساز حقیقی چچا حضرت ابو طالب نے بھی حضورﷺ کا ساتھ چھوڑنا چاہا ۔صبر و استقلال کا یہ آخری امتحان تھا۔ اس وقت آپ ﷺ نے جواب میں جو فقرہ فرمایا عالم کائنات میں صبر و استقلال اور ثبات کے اظہار کا سب سے آخری طریقہ تعبیر ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چچاجان اگر قریش میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں اپنے اعلان حق سے باز نہیں آؤں گا ۔ایسا صبرواستقلال صرف انبیاء ہی کی شان ہے ۔
بڑے بڑے مضبوط پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جاتے ہیں مگر ان کا دل اپنے عہدو ارادہ پر نہ متغر ہوتا ہے اور نہ کمزوری دکھاتا ہے ۔
صبر و استقلال کی اہمیت و ضرورت
کسی تحریک یا مشن کی کامیابی کا راز صبرواستقلال میں پوشیدہ ہے ۔بے صبری اور عدم استقلال ناکامی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے ۔حضور ﷺ صبر و استقلال کا بہترین نمونہ ہے ۔حضور ﷺ کی پیاری زندگی کا ایک ایک لمحہ صبرواستقلال کا مرقع اور امت کے لیے اسوہ حسنہ ہے ۔آپ نے دین حق کے لیے مصائب و مشکلات میں نہ صرف خود صبر و استقلال کی بےنظیر مثالیں قائم کیں بلکہ آپ کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے آپ کے صحابہ اور ازواج مطہرات نے بھی صبر و استقلال کی یادگار مثالیں چھوڑی ہیں ۔اگر آپ ﷺ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں صبر نمونہ پیش نہ فرماتے تو آج اسلام دنیا کا پہلا بڑا مذہب ہرگز نہ ہوتا ۔اور مسلمانوں کی تعداد ایک ارب 40 کروڑ سے زیادہ نہ ہوتی ۔کفار مکھا نے حضور ﷺ اور آپﷺ اصحاب پر ہر قسم کے ظلم و ستم آزمائے مگر جو صبر و استقلال کے سامنے شکست مان کر سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر اس دین میں ایسی کونسی مقناطیسیت ہے کہ جو بھی اس میں داخل ہوتا ہے واپس لوٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔یہی سوچ سوچ کر تھوڑے عرصے میں پورا عرب حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ آپ اور حضور ﷺ کے پیروکاروں صبر اور استقلال ہے کے ہوتے ہوتے اسلام کی مشام جاں اور روح پرور ہوائیں چار دانگ عالم میں پھیل گئی ۔صبر و استقلال کی بدولت ہی عظیم اسلامی سلطنتوں وجود میں آئی اور ایک پاکیزہ اور سحرانگیز اسلامی تہذیب نے جنم لیا
ارشاد ربانی ہے
اور جو صبر کرے اور بخش دے تو یقینا بہت بڑی ہمت کا کام ہے ۔
صبر کا ایمان سے وہی تعلق ہے جو سر کا جسم کے ساتھ ہے ۔
اس بات پر مسلمان اور دین اسلام آزمائش سے مشکلات سے دوچار ہیں۔ اہل اسلام کا یہ فرض ہے کہ سب واستقلال کا دامن تھامے ہوئے تبلیغ اسلام کی مساعی کو تیز کریں۔پیغام الہی اور اسوائے محمدی ﷺ کو گھر گھر پہنچائیں۔ ایمان کی اس روشنی سے اپنے دلوں اور گھروں کو منور کرتے ہوئے محروم تمنا کھیتوں اور اجڑی فصلوں کی ضیاء پاشی کریں ۔
مٹا دو اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہتے ہو
کے دانہ مٹی میں مل کر گل و گلزار بنتا ہے
صبر و استقلال کے ثمرات
صبر و استقلال مومن کا ہتھیار ،مسلمان کا لباس اور انبیاء اولیاء کرام کی پہچان اور خوبصورتی ہے ۔جو مسلمان مشکل حالات میں صبرواستقلال کو دوست بنا لیتا ہے بلاآخر کامیابی اس کے قدم چومتی ہے اور صبر کے پھل سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔دنیا و آخرت کی فوز و فلاح اور جنت جیسی ابدی گھر اسے نصیب ہوتا ہے۔
ارشاد ربانی ہے
- صبر کرنے والے اللہ کے محبوب ہیں ۔
- لیکن اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
- صبر کرنے والوں کو تو ان کی مزدوری بے حساب ملے گی۔
ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
- صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ۔
- مومن پر جب سختی یا بیماری رانج یا تکلیف آئے یہاں تک کہ اسے کانٹا بھی چبھے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اسکی کچھ خطائیں معاف کر دیتے ہیں ۔