صوم روزه فارسی زبان کا لفظ ہے ۔ قرآن مجید اور عربی زبان میں روزہ کے لئے صوم اور صیام کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ صوم کے لغوی معنی رکنا ، روکنا ،ترک کرنا ، اپنے آپ کو روکے رکھنا ، باز رہنا اور سیدھا ہونا کے ہیں ۔ اصطلاح شریعت میں صبح صادق کی پہلی علامت ظاہر ہونے سے غروب آفتاب تک عبادت کی نیت سے کھانے پینے نفسانی جنسی خواہشات کے ترک کرنے ، ہر قسم کے گناہوں سے رک جانے اور روزہ توڑنے والی چیزوں سے باز رہنے کا نام صوم ( روزہ ) ہے ۔
روزہ کی اہمیت
روزه اسلام کا تیسرا رکن ہے ۔ قرآن مجید میں کم و بیش 90 بار روزہ رکھنے کا کم دیا گیا ہے ۔ اللہ رب العزت نے مسلمانوں پر سال بھر میں رمضان المبارک کے روزے فرض قراردیئے ہیں ۔ روزہ تمام انبیاء کرام کی تعلیمات کا لازمی جزو رہا ہے ۔
ارشاد ربانی ہے ۔
اے ایمان والو تم پر روزے اس طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے ۔
اس آیت کریمہ میں روزہ کی اہمیت ، فرضیت ، تاریخی حیثیت اور مقصد کی وضاحت کی گئی ہے ۔ حضرت نوح علیہ السلام صائم الدھر تھے ۔ داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے ۔ عیسی علیہ السلام ایک دن روزہ رکھ کر دو یا کئی دن ناغہ کرتے تھے ۔ عربیوں میں عاشورہ کا روزہ رائج تھا ۔ رسول اکرم ﷺ بھی مسلسل روزہ رکھنے اور کھبی مسلسل ناغہ فرماتے تھے ۔ رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ ایام بیض یعنی ہر ماہ کی ۱۴،۱۳ اور ۱۵ کو بھی روزہ رکھتے تھے ۔
روزہ کی اہمیت مندرجہ ذیل اہادیث نبوی سے بھی واضح ہو جاتی ہے ۔
- جوشخص کسی شرعی عذر اور مرضی کے بغیر رمضان شریف کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے وہ اگر وہ عمر بھر کے روزے رکھتا ہے تب بھی اس ایک روزے کی تلافی نہیں ہو سکے گی ۔
- جس شخص نے ایمانی شعور اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے گا اس کے وہ سارے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے جو اس سے پہلے ہو چکے ہیں ۔
- ہلاک ہوا وہ جس نے رمضان کا مہینہ پایا پھر بھی اسے مغفرت نصیب نہ ہوئی ۔
- بدنصیب ہے وہ جو اس مہینہ میں بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔
- جس شخص نے روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے سے کوئی سروکا نہیں ۔
روزے کی فرضیت
نبوت کے پندرہویں سال 2 ہجری میں روزہ فرض ہوا ۔ ابتداء میں صرف ایک دن یعنی دسویں محرم کا روزہ فرض ہوا پھر بی منسوخ ہوا اور ہر ماہ چاند کی ۱۳ ، ۱۴ اور ۱۵ کے روزے فرض کئے گئے ۔ یہ بھی منسوخ کر دیئے گئے اور رمضان المبارک کے روزے فرض کئے گئے مگر لوگوں کو اختیار تھا چاہے روزے رھیں یا فدیہ ادا کریں ۔ پھر یہ اختیار منسوخ ہو کر صرف روزے رکھنا لازمی قرار دے دیا گیا اور یہ پابندی رکھی گئی کہ رات کو سونے سے قبل جو چاہو کھاؤ پیو سونے کے بعد دوسرے روز غروب آفتاب تک کچھ کھانا پینا جائز نہیں ۔ بعد میں سونے تک کی بجائے صادق تک کھانے پینے کا اختیار دے دیا گیا ۔ پس اس کے بعد قیامت تک کے لئے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے ، نفسانی ، جسمانی و شہوانی خواہشات کی تکمیل سے باز رہنے کوروزے کی حالت میں لازمی قرار دے دیا گیا ۔
روزے میں سینکڑوں علامتیں ہیں ۔ روزے کو نفس انسان کی تربیت اور اصلاح میں خصوصی دخل ہے ۔ انسانی تربیت اور اصلاح کا کوئی نظام اس کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ۔ اس وجہ سے تمام سابقہ شریعتوں میں بھی روزہ کسی نہ کسی شکل میں فرض رہا ہے اور اسلام نے بھی اس کو بنیادی رکن کی حیثیت سے لازم قرار دیا ہے ۔
ارشاد ربانی ہے
پس تم میں سے جو اس مہینے کو پائے پس اسے اس کے روزے رکھنے چاہے ۔
رمضان کے پورے مہینے کے روزے رکھنے کا حکم الله تعالی کی طرف سے قرآن میں نازل ہوا ۔ اسی پاکیزہ مہینے میں قرآن حکیم کا نزول شروع ہوا اور اسی میں ہی اس کی تکمیل ہوئی ۔ ہر عاقل بالغ تندرست اور مقیم مسلمان مرد اور عورت پر روزہ فرض کیا گیا ہے ۔
مزید پڑھیں
اسلام میں مساوات کی اہمیت
اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولید راضی اللہ عنہ
مزید پڑھیں
اسلام میں مساوات کی اہمیت
اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولید راضی اللہ عنہ
روزہ کے مسائل
- روزہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض کیا گیا ہے ۔
- اگر کوئی مسلمان جان بوجھ کر روزہ نہ رکھے یا توڑ دے تو اس پر روزہ کی قضا اور کفاره دونوں لازم ہیں ۔ کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے یا مسلسل ساٹھ روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ روزہ کی قضا بھی کرے یعنی توڑے یا چھوڑے ہوئے روزے رکھے ۔
- ہمیشہ بیمار رہنے والا یا ایسا ضعف جس میں روزہ رکھنے کی ہمت نہ ہو وہ کفارہ کے طور پرکی مسکین کو کھانا کھلادے ۔
- مسافر اور بیمار کے لئے اس بات کی رعایت ہے کہ وہ بیماری کے دوران اور سفر میں روزے قضا کر لے اور چھوڑے ہوئے روز کے بعد میں رکھ لے ۔
- سحری آخری وقت میں کھانا اور افطار میں جلدی کرنا بہت اچھا عمل ہے ۔
روزہ کی قسمیں
روزہ کی چھ قسمیں زیادہ مشہور ہیں
- فرض روزہ
- واجب روزه
- سنت روزہ
- نفلی روزہ
- مکروه روزه
- حرام روزہ
روزے کی قسموں کی وضاحت
1۔فرض روزے
صرف رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں ۔ ان کا انکار کرنے والا کافر اور کسی شری عذر کے بغیر چھوڑنے والا سخت گناہگار اور فاسق بن جاتا ہے ۔
2۔واجب روزے
یہ نذرو منت یا کفارے کے روز سے ہوتے ہیں جوکسی مقصد کے پورے ہونے ، متعین دن یا فرض کے بدلے میں رکھے جاتے ہیں ۔
3۔سنت روزے
فرض روزوں کے علاوہ جن ایام میں حضور ﷺ نے خود روزے رکھے ہیں اور جنہیں رکھنے کی حضور ﷺ نے ترغیب دی ہے وہ روزے سنت کہلاتے ہیں ۔ ان کا بہت اجر وثواب ہے جو یہ ہیں :
- عاشورہ یعنی نویں اور دسویں محرم کے روزے
- یوم عرفہ یعنی ذوالحجہ کی نویں
- تاریخ کا روزہ
- ایام بیض یعنی ہر مہینے کی ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ تاریخ کے روزے رکھنا ۔
4۔نفل روزے
وہ روزے جن کے رکھنے کا بہت ثواب ہے اور نہ رکھنے کا کوئی گناہ نہیں ۔
نفل روزے یہ ہیں .
- شوال کے چھ روزے
- پیر اور جمعرات کے دنوں کا روزہ
- ماه شعبان کی پندرہویں تاریخ کا روزہ
- ماہ زولحجہ کے ابتدائی آٹھ دنوں کے روزے ۔
5۔مکروہ روزے
وہ روزے جن میں کراہت ہے۔مطلب
- سنیچر یا اتوار کے دن کا روزہ
- صرف دسویں محرم کا روزه
- کسی خاتون کا فرض روزوں کے علاوہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ رکنا
- صیام وصال یعنی مسلسل روزے رکھنا ۔
6۔حرام روزے
وہ ایام جن میں روزے رکھنا گناہ اور حرام ہے ، وہ پانچ ہیں
- عید الفطر کے دن روزہ رکھنا
- عیدالاضحی کے دن روزہ رکنا
- ایام تشریق یعنی 11،12 اور 13 زولحجہ کے روزے رکھنا
روزہ توڑنے والی چیزیں
جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی قضا یا کفاره واجب ہو جاتا ہے وہ حسب ذیل ہیں ۔
ارکان روز یعنی کھانے پینے اور جنسی خواہشات کی تکمیل سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کسی رکن کو توڑنے کا ارتکاب کرے تو اس کے لئے غلام آزاد کرنا یا ساٹھ دن مسلسل روزے رکھنایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ضروری ہے ۔
روزے کو فاسد کرنے والی چیزیں
یعنی وہ صورتیں جن میں قضا کے طور پر صرف ایک روزہ رکھنا لازم ہوتا ہے ، وہ یہ ہیں
- اگر دیر سے آنکھ کھلے اور سحری کا وقت سمجھ کر کھا پی لے یا کسی وجہ سے دیر تک سحری کیا کھاتا رہے۔
- سورج ڈوبنے سے پہلے روزہ افطار کرے ۔
- ارادہ کے بغیر کوئی چیز پیٹ ، ناک یا کان میں چلی جائے ۔
- کوئی زبردتی کوئی چز کھلا یا پلادے ۔
- منہ بھر کے قے آجائے ۔
- مسواک کرتے وقت منہ سے خون آ جائے اور نگل جائے ۔
- روزہ کو مکروہ کرنے والی چیز
- ان صورتوں میں روز و برقرار رہتا ہے لیکن اس کے ثواب میں کمی واقع ہو جاتی ہے ۔
- نگی تصاویر، مجسمے یا کسی غیر مرد اور عورت کو بری نگاہ سے دیکھنا ۔
- جھوٹ بولنا ، گالی گلوچ ، غیبت اور بہتان تراشی کرنا ، وغیرہ ۔
- کسی چیز کا ذائقہ چکھنا ۔
- منہ میں کوئی چیز چبانا ۔
- منجن ، پیسٹ یا کوئلہ وغیرہ چبا کر دانت صاف کرنا۔
روزہ کو مباح کرنے والی چیزیں
مندرجہ ذیل صورتوں میں روزہ مباح ہو جاتا ہے یعنی ان سے روزے پرکوئی خوشگوار یا ناخوشگوار اثر نہیں پڑتا ۔
- مسواک کرنا
- غسل کرنا
- کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا
- سرمہ لگانا
- فصد کرنا یعنی جسم کا خون نکلوانا
- بھول کر پانی پی لینا
روزہ کو مستحب کرنے والے کام
درج ذیل امور سرانجام دینے سے روزے کا ثواب بڑھ جاتا ہے
- سحری کا اہتمام کرنا
- روزے کی نیت کرنا
- سحری اخیر وقت میں کھانا اور افطار غروب آفتاب کے فورا بعد کرنا
- کھجور یا پانی سے افطار کرنا
روزے کا مقصد اور فلسفہ
عربی زبان کا مقولہ ہے۔
اللہ تعالی کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا
روزے کے نام سے انسان کو بھوکا پیاسا رکھنا اور نفسانی جنسی خواہشات کی تکمیل سے ایک خاص وقت میں باز رکھنا قطعا بے مقصد نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا اہم اور عظیم مقصد ہے کہ اس کے بغیر دین مکمل ہوتا نظر نہیں آتا وہ مقصد ہے روحانی و جسمانی اصلاح ، تزکیہ نفس ، تقوی ، روحانی تربیت و اصلاح نفس انسانی کی اصلاح اور اس کے سرکش رجحانات کو قابو میں لانے اور انہیں رام کرنے کے لئے جنتاموثر روزہ ہے ، اتنا کوئی دوسرا عمل نہیں ہے ۔
نفس انسانی کے جو پہلو سب سے زیادہ زور دار ہیں ، ان میں شہوات ، خواہشات اور جذبات سب سے نمایاں ہیں ۔ ان کی فطرت ہی میں جوش اور اشتعال ہے ۔ اس لئے ان پر قابو پانا آسان نہیں ہے ۔ روزے میں ان تینوں چیزوں پر پابندی ہوتی ہے ۔ روزہ دار کا کھانا بینا بند ہو جاتا ہے ۔ روزہ کی وجہ سے وہ نفس امارہ کو کنٹرول کر لیتا ہے ۔ اپنی روحانی تربیت و اصلاح اور تزکیہ نفس کر کے اپنے اندر تقوی پیدا کر لیتا ہے ۔
روزے کا مقصد روزے دار کو نیک کام پر ابھارنا اور برے کام سے باز رکھنا ہے ۔
قرآن حکیم کی روشنی میں روزے کے عین مقاصد ہیں
- انسان کو پرہیزگار بنانا
- الله کی بزرگی اور بڑائی بیان کرنے کا جذبہ پیدا کرنا
- انسان کو رب کی نعمتوں کا شکر گزار بنانا ۔
روزے کی بدولت انسان اللہ تعالی کی اطاعت ورضا حاصل کر کے نافرمانی سے بچنے کا راستہ حاصل کرتا ہے ۔ صبح صادق سے غروب آفتاب تک آدمی پر کھانا پینا اور مباشرت کرنا حرام ہو جاتا ہے ۔ حدیث پاک میں روزہ کوڈھال کہا گیا ہے ۔ روزہ کے ڈھال ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ روزہ انسان کو گناہوں ، برائیوں اور غلط کاموں سے بچانے والی ڈھال ہے ۔
ایک مہینہ مسلسل روزانہ انسان کی فطری خواہشات کی تکمیل میں رکاوٹ پڑتی رہتی ہے ۔ ٹھنڈا پانی پاس ہوتا ہے ، دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا ، پیاس بے چین کئے ہوئے ہوتی ہے مگر کیا مجال کہ اس کی طرف ہاتھ بڑھے ۔ روزہ کا احساس اور خوف الہی اس کے ہاتھ کو روکے رکھتا ہے اور روزہ دار ہے بس ہوکر رہ جاتا ہے ۔ بس یونہی روزانہ انسان کے نفس امارہ کی حوصلہ شکنی ہوتی رہتی ہے اور وہ انسان محض اللہ کی خاطر اپنی فطری خواہشات سے رکنے اور ضبط نفس جیسی اہم تربیت روزہ کی بدولت حاصل کرتا رہتا ہے ۔ گویا روزہ سالانہ ایک ماہ کا تربیتی کورس ہے جو انسان کو اپنی فطری خواہشات کے آگے سر جھکانے کی بجائے ان کا مقابلہ کرنے اور ان پر قابو پانے کی تربیت دیتا ہے ۔ اس سے انسان کے کردار میں قوت ارادی اور استقامت میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے ۔
روزہ امیروں کو غریبوں کی بھوک ، پیاس ، دھوپ اور گرمی کا احساس دلاتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ جس طرح تمہیں اب روزہ کی حالت میں بھوک ، پیاس ، دھوپ اور گرمی کی شدت کا احساس ہورہا ہے بعینہ غریبوں کے پاس وسائل کی کمی کے باعث ہمیشہ یہی کیفیت ہوتی ہے ۔ لہذا اے امیروں کا گروہ اپنے بے پناہ وسائل میں سے ان بے زبان غریبوں اور چلچلاتی دھوپ میں کام کرنے والے مزدوروں کے لئے پورا پورا حصہ نکال باہر کیا کرو ۔
مزید پڑھیں
اسلام میں اخوات اور بھائی چارہ
سچ کیا ہے؟
مزید پڑھیں
اسلام میں اخوات اور بھائی چارہ
سچ کیا ہے؟
روزے کے فضائل
حضور سید المرسلین صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے روزے کے لاتعداد فضائل بیان فرمائے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :
- حق تعالی شانہ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھجتے ہیں ۔
- روزہ ڈھال ہے ،اس کے سبب مومن دنیا میں شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے اور آخرت میں دوزخ کی آگ سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔
- ۔روزہ دار کے منہ کی بو خدا تعالی کے نزدیک مشک وعنبر سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔
- جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک کا نام باب الریان ہے ۔ اس دروازے میں سے جنت کے اندر صرف روزہ دار ہی داخل ہو سکیں گے ۔
- اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں ہی دوں گا ۔
ماه رمضان کے فضائل
جس طرح تمام شہروں سے شہر مکّہ افضل ہے ۔ تمام دنوں سے جمعہ کا دن افضل ہے ۔ تمام راتوں سے لیلة القدر افضل ہے ۔ اسی طرح تمام مہینوں سے ماہ رمضان افضل ہے ۔ اس کے بہت فضائل ہیں جن میں سے چند یہ ہیں ۔
- تمام الہامی کتابیں انبیاءعلیہم السلام پر اسی ماه نازل ہوئیں ۔ قرآن حکیم بھی اسی ماہ نازل ہوا ۔
- شب قدر جو خیر و برکت والی اور ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اس ماہ کے آخری عشرے میں آتی ہے ۔
- ماہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے نجات کا باعث ہے ۔ ۔ اس مہینے میں مومن کی روزی میں اضافہ کردیا جاتا ہے ۔
- رمضان المبارک میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور بڑے بڑے شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے ۔
- ماہ رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے ۔
- حق و باطل کے درمیان پہلا معرکہ ( جنگ بدر ) رمضان المبارک کو ہوا جس میں حق کو فتح ہوئی ۔
- اس مہینہ میں مکہ فتح ہوا ۔
- اسی مہینہ میں اندلس میں موسی بن نضیر اور طارق بن زیاد کو فتوحات نصیب ہوئیں ۔ ہندوستان میں محمد بن قاسم کا فاتحانہ داخلہ اسی ماہ میں ہوا ۔
- جس شخص نے ماہ رمضان میں عقیدت و ایمان کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کے لئے روزے رکھے اور راتوں میں عبادت کے لئے کھڑا ہوا اور شب قدر کو عبادت کے لئے جاگا اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔
- مسلمان کو ہر نیکی کا ثواب دس گنا ملتا ہے جو بڑھتے بڑھتے سات سو گنا تک ہو جاتا ہے لیکن ماه رمضان میں نیکیوں اور روزوں کا ثواب اس سے بھی بڑھ جاتا ہے ۔
- ماه رمضان میں نفلی عبادت کا ثواب دوسرے مہینوں میں فرض ادا کرنے کے برابر ہے اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کرنے کے برابر ہے۔
- حضور اکرم ﷺ ماه رمضان میں قیدی رہا کر دیتے اور ہر مانگنے والے کو عنایت فرماتے تھے ۔
روزہ کے فوائد
روزہ بے ریا اور خاموش عبادت ہے ۔ اس کے بے شمار جسمانی و روحانی فوائد میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں
- روزہ مومن کو خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت کے لئے تیار کرتا ہے اور اس کا یقین پختہ کرتا ہے کہ روزہ رکھنے کا حکم الله تعالی کی طرف سے ہے کسی انسان کی طرف سے نہیں ۔
- روزہ سے بندے اور خدا کے درمیان براہ راست معاملہ اور تعلق پیدا ہو جاتا ہے ۔
- روزے سے افراط اور تفریط کی بجائے اعتدال کے ساتھ جسمانی و روحانی تربیت ہوتی ہے ۔
- روزہ مومن کو وقت کی پابندی اورنظم و ضبط سکھاتا ہے ۔
- روزہ مومن کو ضبط نفس اور ضبط ذوق کی تعلیم دیتا ہے ۔
- روزہ جسم کی اصلاح کر کے تندرست ، توانا اور طاقت ور بناتا ہے ۔
- روزہ سے انسان کے اندر ہمدردی ، ایثار ، مساوات ، صبر حلم ، رضا ، اوصاف حمیدہ اور اخلاق جمیلہ پیدا ہوتے ہیں ۔
- روزہ مومن سے ریاء ،دکھلاوا ، اخلاق رزیلہ اور عادات شنیعہ دور کرتا ہے ۔
- روزہ مومن کے اندر تقوی اور خدا خوفی کا جوہر پیدا کرتا ہے ۔ گناہوں سے بچاتا اور دل و دماغ کومحلبی وصفی کرکے خدا کی یاد اور عملی تصور پیدا کرتا ہے ۔
- روزہ انسان کو سادگی ، جفاکشی ، میانہ روی ، اعتدال پسندی ، صبر و تحمل اور توکل اختیارکرنے اور عیش و تنعم کی زندگی چھوڑنے کی تعلیم دیتا ہے ۔
- روزے سے مومن کا الله تعالی کے عالم الغیب ہونے پر ایمان پختہ ہو جاتا ہے ۔ وہ اسے ہر حال میں حاضر و ناظر سمجھ کر تنہائی میں بھی روزہ توڑنے کا تصور نہیں کرتا ۔ الله تعالی کے سمیع و بصیر ہونے پر پختہ یقین کی وجہ سے انسان کے معاملات میں اعتدال پسندی آجاتی ہے ۔
- روزہ رکھنے کی وجہ سے انسان کے اندر کھانے پینے میں اعتدال پسندی آ جاتی ہے ۔ اعتدال سے کھانا یا جسمانی بیماریوں کے خاتمے اور حفظان صحت کا ضامن ہے ۔
- روزے سے مومن کے اندر جماعتی احساس پیدا ہوتا ہے ۔ روزے کی بدولت جماعتی احساس پیدا ہونے سے باہمی یگانگت ، رفاقت یکجہتی اور رشتہ اخوت بیدار ہوتا ہے ۔
- رمضان المبارک اور روزوں کی برکت سے نیکی اور پاکیزگی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں