حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ
حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں ۔آپ کا تعلق حضرت ابراھیم علیہ السلام کے خاندان میں سے تھا تو یہ اسرائیلی نبی تھے۔جب آپ علیہ السلام کی
عمر 28 سال۔ ہوئی تو اللہ نے انھیں نبوت عطا کی۔
قرآن کریم نے حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ بیان کیا ہے۔قرآن پاک میں 6 سورتوں میں آپ علی السلام کا ذکر آیا ہے۔حضرت یونس علیہ السلام کو قرآن نے زوالنون اور صاحب الحوت کے ناموں سے پکارا گیا ہے۔صاحب الحوت سے مراد مچھلی والا ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کو عراق میں بھیجا گیا ۔یہاں کے لوگ کافر تھے اس قوم کا مرکز نینوی میں تھا۔
آپ علیہ السلام نے انھیں ھدایت ہکا پیغام دیا اور واحد اللہ کی عبادت کرنے کا کہا لیکن انہوں نے اللہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور بتوں کی پوجا کرتے رہے اپنے کفر پر قائم رہے۔پھر انہوں نے یونس علیہ السلام پر ظلم کرنا شروع کر دیا۔حضرت یونس علیہ السلام ان کے مخالفانہ رویہ سے مایوس ہو گے اور ان سے ناراض ہو کر تین دن میں عذاب الہی کی بددعا دے دی ۔
پھر وہ دن آنے سے پہلے ہی اللہ کے حکم کے بغیر اس علاقہ کو۔ چھوڑ کر وہاں سے نکل گئے۔
وہاں کے۔ لوگوں نے جب عذاب کے آثار دیکھے تو
پھر آپ علیہ السلام کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملے۔
تو انہوں نے اللہ سے توبہ کی تو اللہ نے عذاب ٹال دیا۔
اللہ نے حضرت یونس علیہ اسلام کو جانا کا حکم نہیں دیا تھا ۔مگر وہ وہاں سے چلے گے۔اللہ اس وقت تک لوگوں پر اپنا عذاب نہیں بھجتا جب تک وہ آخری وقت تک اللہ سے توبہ نہیں کرتا۔چونکہ
حضرت یونس علیہ السلام وہاں سے چلے گئے تھے ۔
آپ علیہ السلام فرات کے کنارے گئے اور کشتی میں سوار ہو گئے۔کشتی لوگوں اے بھری ہوئی تھی ۔جب کشتی نے اپنا سفر شروع کر دیا تو کشتی اؤنچی لہروں سے ڈوبنے لگی۔لوگوں نے وزن کم کرنے کیلے اپنا سامان پانی میں پھینک دیا مگر پھر بھی کشتی ڈگمگا رہی تھی تو وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے کہا کے کوئی غلام اپنے آقا سے بھاگ کر اس کشتی میں سوار ہو گیا ہے جس کی وجہ سے کشتی ڈوب رہی ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کے کشتی نا ڈوبے تو اس کو کشتی سے پھینکانا ہوگا۔اچانک حضرت یونس علیہ السلام کو لگا کے وہ کوئی وحی کے بغیر وہاں سے نکل آے تھے تو کہنے لگی میں ہی وہ غلام ہوں جو اپنے مالک سے بھاگ آیا لیکن انہوں نے بات نا مانی اور کہنے لگی آپ تو نیک ہو یہ کوئی اور ہے ۔اس کا پتا کرنے کے لیے ہم قرعہ اندازی کریں گے تو انہوں نے قرعہ اندازی کی تو تین
بار حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکل آیا۔تو اس پر انھیں یقین آگیا اور آپ علیہ السلام پانی کو کود گئے تو اللہ نے ایک مچھلی کو حکم دیا کے
یونس علیہ السلام کو بغیر نقصان دیے نگل جائے۔تو مچھلی حضرت یونس علیہ السلام کو نگل گئی۔جب مچھلی کے پیٹ کے اندر اپنے آپ کو زندہ پایا تو
پھر حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کیا۔اور اللہ سے توبہ کی۔
ان پر تین طرح کے اندھیرے تھے
مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا
رات کا اندھیر
سمندر کا اندھیر
حضرت یونس علیہ السلام نے اللہ سے توبہ جاری رکھی اور اپنے کام کی معافی طلب کی۔
اللہ نے ان کا معاف فرما دیا اور مچھلی کو نگلنے کا حکم دیا تو مچھلی نے یونس علیہ السلام کو سمندر کے۔ کنارے نگل دیا۔
حضرت عبدالله بن مسعود راضی اللہ عنہ کہتے ہیں کے جب مچھلی نے حضرت یونس علیہ السلام کو باہر نکالا تو آپ کا جسم ایسے پرندے کی ترح تھا جو ابھی پیدا ہوا ہوان کا جسم بلکل نرم تھا اور جسم پر کوئی بال۔ نہیں تھا مطلب بہت کمزوری کے حالت میں خشکی پر ڈال دیے گئے تھے پھر اللہ نے خشکی پر ایک بیل در درخت اگایا۔
اس کے علاوہ اللہ نے ایک بکری بھیج دی جو گھاس اور جڑی بوٹیاں کھاتی تھی اور آپ کو صبح شام دودھ پلاتی تھی جس سے آپ میں طاقت آگئی اور وہ درخت کے ساتھ جھونپڑی بنا کر رہنے لگے۔
کچھ دنوں بعد اس درخت کی جڑمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کپڑا لگ گیا اور اس نے جڑکوکاٹ ڈالا۔ جب درخت سوکھنے لگا تو یہ دیکھ کر یونس بہت دکھ ہوا ،تب اللہ تعالیٰ نے وحی میں فرمایا : یونس !تم اس بیل کے سوکھنے پر کتنا دکھی ہو جو ایک حقیر سی چیز ہے۔ مگرتم نے یہ نہ سوچا کہ جس جگہ کو تم چھوڑ کر آے تھے وہاں کی آبادی ایک لاکھ سےزائد ہے اور ان کے علاوہ جاندار بھی رہتے ہیں ۔ان کو بربادی کی تمہاری دعا مجھے ناگوار نہیں لگی ہو گئی ۔تم وحی کا انتظار کیے بغیر قوم کو بددعا دے کر ان کےدرمیان سےنکل آئے ۔ایک نبی کی شان نہیں تھی کہ وہ قوم کےحق میں عذاب کی بددعا کرتے اوران سے نفرت کرکےجدا ہو جائے۔
یونس علیہ اسلام کے بستی سے چلے جانے کے بعد وہاں کے لوگوں کل یقین آگیا کے وہ اللہ کے نبی ھی تھے جس سے ان کے دل میں ڈر بیٹھ گیا۔وہ لوگ آپ کو تلاش کرنے لگے تا کے ان سے معافی مانگ کر ان کے ہاتھ پر بیعت کی جائے۔اور اللہ سے بھی استغفار کیا۔اور دعا کی اللہ ان کو عذاب سے محفوظ رکھے۔
اللہ نے ان کی دعا قبول کی ان پر عذاب ٹال دیا اور
حضرت یونس علیہ السلام کو صحت عطا کی۔اللہ نے انھیں واپس اپنی قوم میں جانے کا حکم دیا تو وہ واپس نینوی چلے گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپ کو دیکھ کر خوش ہو گئے ۔
پھر باقی زندگی حضرت یونس علیہ اسلام نے باقی وہیں گزاری۔ اور ان کا نینوی میں انتقال ہو گیا۔