انگریز اور ہندو کی شدید مخالفت کے باوجود بالاخر 14 اگست 1947 ء کو مسلمانان ہند اپنا الگ وطن پاکستان بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔
ابتدا میں نئی ریاست کو درج ذیل مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔
انتظامی مسائل
پاکستان کی نئی ریاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہندوستان کے مرکزی نظام کے دفاتر اور ریکارڈ ہندوستان کے قبضے میں چلے گئے ۔ قائداعظم کو نئی ریاست کے مرکزی دفاتر کراچی میں پرائیویٹ عمارتوں اور شامیانوں میں قائم کرنے پڑے جہاں بیٹھنے کے لئے کرسیاں تک نہ تھیں اور تجربہ کار کارکنوں کی شدید قلت تھی ۔
مسلہ مہاجرین
پاکستان کی نئی ریاست کو جس مسئلہ نے سب سے زیادہ پریشان کیا وہ مسئلہ مہاجرین تھا ۔ ایک اندازہ کے مطابق 55 لاکھ ہندو پاکستانی علاقہ چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے ۔ اور 65 لاکھ مسلمان ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آگئے ۔ اس طرح پاکستان کو لاکھوں افراد کی آباد کاری کابوجھ اٹھانا پڑا ۔
مسلم کش فسادات
برصغیر کی تقسیم کا سب سے المناک پہلو مسلم کش فسادات تھے جس کا آغاز 1940 ء سے بہت پہلے ہو چکا تھا ۔ پاکستان بننے کے بعد سکھ اور ہندو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگے ۔ مسلمان مہاجرین کو لانے والی ٹرینوں کو روک کر عورتوں کو اغوا کر لیا جاتا اور مردوں کو شہید کر دیا جاتا تھا ۔ بعض اوقات پوری ٹرین میں سے ایک شخص بھی زندہ بچ کر منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوتا ۔ ان واقعات پر پاکستانی قوم کو سخت صدمہ پہنچا ۔
بنگال کی تقسیم
متحدہ بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ۔ کلکتہ اس کا صدر مقام تھا ۔ ریڈ کلف نے بنگال کی تقسیم میں سخت ناانصافی کرتے ہوئے کلکتہ ہندوستان کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح بنگال کے صوبائی دفاتر، بندرگاه، صنعتی اور تجارتی علاقے ہندوستان کے قبضے میں چلے گئے ۔
پنجاب کی تقسیم
پنجاب کی تقسیم میں بھی ریڈ کلف اور مونٹ بیٹن نے ہندوؤں کی طرف داری کی ۔ فیروز پور، جالندھر اور گورداسپور کے مسلم اکثریت کے اضلاع ہندوستان کو دے دیے ۔ خاص طور پر گورداسپور تو صرف اس وجہ سے ہندوستان کے حوالے کیا تاکہ ہندوستان کو کشمیر تک رسائی حاصل ہو سکے ۔
صنعتی مسائل
ہندوستان کے مسلم اکثریت والے علاقوں سے انگریزوں کو سستے فوجی سپاہی ملتے تھے ۔ اس لئے ان علاقوں کو صنعتی لحاظ سے پسماندہ رکھا گیا ۔ مشرقی پاکستان دنیا کی ستر فیصد پٹ سن پیدا کرنیوالے علاقے میں پٹ سن کا ایک کارخانہ نہ تھا اور اسی طرح مغربی پاکستان کے روئی پیدا کرنے والے علاقے میں صرف دو کارخانے تھوڑی سی روئی استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔
ماہرین کی کمی
ہندوستان میں مسلمانوں کاروایتی پیشہ سپہ گری تھا۔ صنعت ، تجارت کاری تعلیم اور طب کے پیشوں سے بہت ہی کم مسلمان وابستہ تھے ۔جب ملک تقسیم ہوا تو غیر مسلم صنعتی ، تجارتی ، بنکاری ،تعلیمی اور طبی اداروں کو چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے جاتے وقت وہ قیمتی مشینوں کے پرزے ضائع کر گئے ۔
معدنی وسائل کی کمی
ہندوستان کا وہ حصہ جو پاکستان میں شامل ہوا اس میں ایسے علاقے موجود تھے ۔ جہاں سے لوہا ،کوئلہ ، تیل ، نمک ، کرومائیٹ ،گندھک اور دوسری معدنیات کثیر مقدار میں نکالی جاسکتی تھیں مگر انگریز نے ان علاقوں سے معدنیات نہ نکالیں اٹک سے تھوڑا سا تیل اور بلوچستان سے تھوڑا سا ناقص کوئلہ نکالا جاتا تھا ۔ صرف نمک ہی پاکستان کی سب سے بڑی معدنی دولت تھی مگر بین الاقوامی منڈی میں اس سے زرمبادلہ کمانا مشکل تھا اس طرح ہم معدنی وسائل کے معاملے میں دوسروں کے مکمل طور پر دست نگر تھے ۔
زرائع نقل و حمل کی کمی
ذرائع نقل و حمل کسی ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ تقسیم ہند کے وقت ہندوستان میں ریلوے کے 9 سلسلے تھے جن میں سے صرف دو پاکستان کو ملے ۔جنگ عظیم اول اور دوم میں ریلوے انجن کثرت استعمال سے برباد ہو چکے تھے اور ان کو بہت ہی تھوڑی تعداد میں اس حصے میں رکھا گیا جو پاکستان کے حصے میں آیا دوسری طرف ان کو چلانے کے لئے پاکستان میں کوئلہ نہ تھا اور ہندوستان نے کو ئلہ دینے سے انکار کر دیا ۔اس علاقے کی تمام ٹرانسپورٹ ہندو کی ملکیت تھی ۔ جاتے وقت وہ تمام گاڑیاں اپنے ساتھ لے گئے ۔
زرائع مواصلات کی کمی
1947 ء میں سارے پاکستان میں ساڑھے سات کروڑ کی آبادی کے لئے 6474 ڈاخانے اور صرف 242 ٹیلی فون ایکسینج تھے ۔ اس کے علاوہ ملک میں صرف تین ریڈیو اسٹیشن لاہور، پشاور اور ڈھاکہ کام کرتے تھے ان کا دائرہ کار بہت ہی کم تھا ۔
زرعی پسماندگی
پاکستان اگرچہ تقسیم کے وقت زرعی ملک تھا ۔ اس کی آبادی کا 80 فیصد حصہ زمین سے وابستہ تھا تاہم اس کی فی ایکڑ پیداوار ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بہت ہی کم تھی اس کا کسان غریب اور پس مانده تھا ۔ فرسودہ آلات ،قدرتی آفات اور فصلوں کی بیماریوں نے زراعت کو پس ماندہ کر رکھا تھا ۔
تجارت کی غیر تسلی بخش حالت
پاکستان کی بین الا قوای تجارت کا انحصار صرف زرعی اجناس پٹ سن اور کپاس پر تھا ۔ پاکستان کے پاس صرف کچامال تھا ۔ اور یہ کوئی صحت مند رحجان نہ تھا ۔ زرعی پیداوار کی قیمتوں میں شدید اتار چڑھاؤ سے درآمدات اور برآمدات کی صورت حال غیر تسلی بخش تھی ۔
تعلیمی پس ماندگی
پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد ایشیائی ممالک میں تعلیمی لحاظ سے بہت ہی پس ماندہ تھا ۔ اس کی آبادی میں صرف سولہ فیصد افراد پڑھے لکھے تھے ۔ ساڑھے سات کروڑ کی آبادی میں صرف 38 لاکھ طلباء پرائمری، مڈل، ہائی ،صنعتی اور تجارتی اداروں میں زیر تعلیم تھے ۔تربیت یافتہ اساتذہ کی شده قلت تھی کیونکہ محکمہ تعلیم سے وابستہ ہندو اساتذہ ملک چھوڑ کر جا چکے تھے ۔
طبی سہولتوں کی کمی
قیام پاکستان کے وقت ملک میں صرف 4 میڈیکل کالج تھے ۔ اور ملک بھرمیں ڈاکٹروں کی تعدار 1225 تھی گویا ہر 61 ہزار افراد کے لئے ایک ڈاکٹر تھا۔ ہندو ڈاکٹر ملک چھوڑ کر جاتے وقت ایکسرے پلانٹ اور دوسرے حساس آلات کو برباد کر گئے اس لئے طبی سہولتیں بہم پینے میں بھی دقت ہو رہی تھی ۔
عالی اداروں کی رکنیت
آزادی سے پہلے ہندوستان تمام دنیا کے ممالک سے سفارتی تعلقات وابستہ کر چکا تھا اور تمام عالمی تنظیموں کا ممبر تھا ۔مگر یہ تمام سہولتیں ہندوستان کے حصے میں آگئیں اور پاکستان کی نئی ریاست کو کثیر اخراجات کے بعد اپنے سفارت خانے قائم کرنے پڑے اور عالمی اداروں کی رکنیت اختیار کرنا پڑی
آئین سازی میں تاخیر
پاکستان کے قیام کے فورا بعد پاکستان کی نئی ریاست کو تشکیل دستور کا مسئلہ درپیش تھا۔ حکومت ہند ایکٹ 1935 ء کو حسب ضرورت ترمیم کرکے مملکت کے دستور کے طور پر اختیار کر لیا گیا تھا ۔ اگر قائد اعظم کچھ دیر اور زندہ رہتے تو ملک کو جلد نیا دستور مل جاتا لیکن بعد کے حکمران دستور کے مسئلے پر 23 مارچ 1956 ء تک پہلو تہی کرتے رہے ۔
مزید پڑھیں
اثاثوں کی تقسیم کا مسئلے
قیام پاکستان کے وقت ہندوستان میں محفوظ سرمایہ 4 کھرب روپے تھا ۔ آبادی کے تناسب سے ایک کھرب روپے پاکستان کو ملنا چاہئے تھا مگر ہندوستان صرف 20 کروڑ دینا چاہتا تھا ۔ نومبر 1947 ء میں اس سلسلے میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں ملک غلام محمّد وزیر خزانہ پاکستان اور چوہدری محمد علی جزل سیکرٹری حکومت پاکستان نے پاکستان کی نمائندگی کی نتیجتا " ہندوستان نے 75 کروڑ روپیہ دینے کا وعدہ کیا مگر پاکستان میں آنے کے بعد پاکستانی وفد کو معلوم ہوا کہ رقم پاکستانی بنک میں منتقل نہیں ہوئی ۔ ہندوستان نے بہانہ بنایا کہ یہ رقم پاکستان کشمیر کی جنگ میں خرچ کرے گا ۔ گاندھی جی نے مرن برت رکھ کر یہ رقم پاکستان کورلوائی ۔
فوجی سامان کی تقسیم میں دھاندلی
پاکستان کو فوجی اثاثوں کا ایک چوتھائی حصہ ملنا چاہیے تھا ۔ تمام قابل حرکت اثاثے اور زیادہ تر فوجی ساز و سامان بھارت میں تھا اس کے علاوہ اسلحہ کی 16 فیکڑیاں بھارتی علاقے میں کام کر رہی تھیں بھارتی حکومت نے ان میں سے کوئی چیز بھی پاکستان کے حوالے نہ کی ۔ ہندوستان فوج کے کمانڈر ان چیف اکنلک کو وقت سے پہلے مایوسی کی حالت میں جانا پڑا ۔ بھارتی سازش کی وجہ سے افواج پاکستان کو بے سروسامانی کا سامنا کرنا پڑا ۔ پاکستان کو اسلحہ کی ضروریات در آمد کر کے پوری کرنی پڑیں ۔ سب سے زیادہ تشویشناک صورت فضائیہ کی تھی اس کی تشکیل نو کرنی پڑی ۔
نہری پانی کا مسئلہ
ریڈ کلف نے جان بوجھ کر دریائے راوی پر واقع مادھوپور اور تلی پر تعمیر کیئے گئے فیروز پورہیڈور کسی بھارت کے حوالے کر دیئے اپریل 1948 ء میں بھارت نے پاکستان کو ملنے والاپانی روک دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کی لاکھوں ایکڑ اراضی میں کھڑی فصلیں برباد ہو گئیں ۔ 1960 ء میں عالی بنک کے توسط سے ہندوستان اور پاکستان میں فیصلہ ہوا جس سے سندھ ،چناب اور جہلم کا پانی پاکستان کو اور راوی پیاس اور ستلج کاپانی ہندوستان کو مل گیا ۔
حیدر آباددکن پر ہندوستان کا قبضہ
11 ستمبر 1948 ء کو قائداعظم کا انتقال ہو گیا اور 13 ستمبر 1948 ء کو ہندوستان نے حیدر آباد دکن پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا ۔ دکن کا حکمران مسلمان تھا اور قانون آزاری پھر 1947 ء میں ایک دفعہ موجود تھی کہ ریاستیں یا تو پاکستان سے الحاق کریں یا ہندوستان سے اگر آزاد رہنا چاہتی ہیں تو انہیں اس کا بھی حق ہے ۔ دکن کا حکمران آزاد رہنا چاہتا تھا مگر ہندوستان نے قانون آزادی ہند کو نظرانداز کرکے حیدر آباد دکن پر قبضہ جمالیا ۔
جونا گڑھ ، مناودر اور منگول پر قبضہ
حیدر آباد پر آنے کے بعد بھارت نے جونا گڑھ ، مناوراور مگرول پر قبضہ کر لیا ۔ یہ تینوں ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کر چکی تھیں ۔ پاکستان نے بھارت کے ان اقدامات کی سخت مذمت کی ۔
مسئلہ کشمیر
ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی وہاں کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے لیکن کشمیر کے حکمران ہندو ڈوگرہ ہری سنگھ نے 27 اکتوبر 1947 ء کو در پردہ ہندوستان سے الحاق کر لیا بھارت نے اپنی فوجیں وہاں اتار دیں پاکستان کو مجاہدین کی امداد کرنی پڑی ۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی بعد میں اقوام متحدہ جنگ بند کرادی ۔ ہندوستان نے رائے شماری کا وعدہ کیا لیکن وہ وعده آن تک پورا نہ ہو سکا ۔
پختونستان کا مسئلہ
تقسیم کے وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ کے لوگوں کو ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ رائے شماری کے ذریعے الحاق کرنے کی مکمل آزادی دی گئی سرخ پوش لیڈر عبد الغفار خان نے مطالبہ کیا کہ سرحد کے لوگوں کو آزاد پختونستان بنانے کی اجازت بھی دی جائے اس مطالبے کو انگریز اور مسلم لیگ دونوں نے مسترد کر دیا ۔ نتیجتا " سرحد کے عوام نے واضح کثرت کے ساتھ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ دیا ۔ لیکن روس، بھارت اور افغانستان کی پشت پناہی میں سرحد کے سرخ پوش رہنما نہایت ہٹ دھرمی سے اپنا مطالبہ دہراتے رہے اور ملک کو سیاسی مشکلات میں مبتلا کرتے رہے ۔
قائداعظم کا انتقال
پاکستان کی نوزائیدہ مملکت مسائل سے دوچار تھی کہ اچانک 11 ستمبر 1948 ء کو بابائے قوم قائداعظم کا انتقال ہو گیا۔یہ خبر مسلمانان پاکستان پر بجلی بن کر گری اور یہاں قیادت کا ایسا خلاء پیدا ہوا جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جاتے ہیں ۔