تعارف حدیث
حدیث کے معنی
قرآن کریم دین فطرت کی آخری اور مکمل کتاب ہے جو حضرت خاتم النبین ﷺ پر نازل کی گئی اور آپ ﷺ نے کو اس کتاب کا مبلغ اور معلم بنا کر دنیا میں مبعوث کیا گیا ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس کتاب الہی کو اول سے آخر تک لوگوں کو سنایا ،لکھوایا، یاد کرایا اور بخوبی سمجھایا اور خود اس کے جملہ احکامات و تعلیمات پرعمل پیرا ہو کر امت کو دکھایا ۔ حضور ﷺ کی حیات طیبہ حقیقت میں قرآن مجید کی قولی اور عملی تفسیر و تشریح ہے ۔ اور آپ ﷺ کے انهی اقوال اور احوال کا نام حدیث ہے ۔ عربی زبان میں لفظ " حدیث وہی مفہوم رکھتا ہے جو ہم اردو میں گفتگو کلام یا بات سے مراد لیتے ہیں چونکہ حضور ﷺ گفتگو اور بات کے ذریعے سے پیام الہی کو لوگوں تک پہنچاتے ،اپنی تقریر اور بیان سے کتاب الله کی شرح کرتے اور خود اس پرمل کر کے اس کو دکھلاتے تھے ۔ اسی طرح جو چیزیں آپ ﷺ کے سامنے ہوتیں اور آپ ﷺ ان کو دیکھ کر یا سن کر خاموش رہتے تو اسے بھی دین کا حصہ سمجھا جاتا تھا ۔ کیونکہ اگر وہ امور منشا دین کی منافی ہوتے تو آپ ﷺ یقینا ان کی اصلاح کرتے یا منع فرماتے ۔ اس لیے ان سب کے مجموعے کا نام احادیث قرار پایا ۔
حدیث کی دینی حیثیت
حدیث شریف کا دین میں کیا درجہ ہے ؟ اس کو ذہن نشین کرنے کے لئے حضرت محمّد ﷺ کی حسب ذیل حیات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے جن کو قرآن پاک نے نہایت صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔
آپ کی ذات قدسی صفات میں ہر مومن کے لیے اسوہ حسنہ ہے ۔
ترجمہ : تحقیق تمھارے لیے رسول الله کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے یعنی اس کے لیے جوڈرتا ہو اللہ اور روز آخرت سے اور ذکر الہی کثرت سے کرتا ہو ۔ (سورت الاحزاب آیات 21)
آپ ﷺ کی اتباع سب پر فرض ہے ۔
ترجمہ : سو ایمان لاو الله پر اس بھیجے ہوئے نبی امی پر کہ جو یقین رکھتا ہے اللہ پر اور اس کے سب کاموں پر اور اس کی پیروی کرو ۔ (سورت الاحراف آیات 158)
جو کچھ ﷺ دیں اس کو لینا اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے باز رہنا ضروری ہے ۔
ترجمہ : اور جودے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو ۔ (سورت احشر آیات 7)
آپ ﷺ کی اطاعت تمام مسلمانوں پر فرض ہے ۔
ترجمہ : اے ایمان والو حکم پر چلو الله کے اور حکم پر چلورسول کے (سورت محمّد آیات 33)
ہدایت آپ ﷺ کی اطاعت سے وابستہ ہے ۔
ترجمہ : اور اگر اس کا کہا مانو تو راہ پاؤ ۔ (سورت النور آیات 54)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ نے جس قدر امت کو ہدایتیں دیں ،جو جو چیزیں ان سے بیان فرمائیں اور کتاب و حکمت کی تعلیم کے ذیل میں جو کچھ ارشاد فرمایا، جن چیزوں کو حلال اور جن کو حرام دہرایا، باہمی معاملات و قضا میں جو کچھ فیصلہ فرمایا ،ان سب کی حیثیت دینی اور تشریعی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ آپ ﷺ کی پوری زندگی امت کے لیے بہترین نمونہ عمل ہے جس کی اتباع اور پیروی کا ہم کو حکم دیا گیا ہے ۔ آپ ﷺ کی اطاعت ہر امتی پرفرض ہے جو آپ ﷺ حکم دیں اس کو بجالانا اور جس سے منع کریں اس سے رک جانا ہر مومن کے لیے لازم اور ضروری ہے ۔ مختصر یہ کہ آپ ﷺ کی اطاعت کی حقیقت میں حق تعالی کی اطاعت ہے ۔ چنانہ قرآن کریم میں تصریح ہے ۔
سورة النساء : 80 ) ترجمہ : اور جس نے حکم مانا رسول کا اس نے حکم مانا الله کا ۔
یعنی جس طرح اللہ تعالی کی بات مانتا فرض اور ضروری ہے اسی طرح حضرت محمّد ﷺ کی بات ماننا بھی لازمی اور حتمی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جملہ احکام دین کے متعلق کے احکام قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ لیکن ان احکام کی تشریح ، ان کی جزئیات کی تفصیل اور ان کی عملی تشکیل رسول کریم ﷺ کے اقوال واعمال اور آپ ﷺ کے احوال کے جانے بغیر نا مکین اور محال ہے ۔
حدیث کی حفاظت
قرآن مجید جو دین کی تمام بنیادی تعلیمات پرمشتمل اور جملہ عقائد واحکام کے متعلق کلی ہدایات کا حامل ہے ۔ اس کا ہر لفظ لوگوں نے زبانی یاد کیا ۔ مزید احتیاط کے لیے معتبر کاتبوں سے خود رسول الله ﷺ نے اس کو کھوالیا ۔ حدیث شریف جوشرع اسلائی کی تمام اعتقادی اور عملی تفصیلات پر حاوی ہے ۔ اس کا قولی حصہ صحابہ کرام نے اپنی قومی عادت اور رواج کے مطابق اس سے بھی زیادہ اہتمام کے ساتھ اپنے حافظ میں رکھا کہ جس اہتمام کے ساتھ وہ اس سے پہلے اپنے خطیبوں کے خطبے، شاعروں کے قصیدے اور حکماء کے مقولے یاد رکھا کرتے تھے اور اس کے عملی حصے کے مطابق فورا عمل کرنا شروع کردیا گیا ۔
خود حضور ﷺ نے بھی متعدد مواقع پر ضروری احکام و ہدایات قلم بند کروایا ۔ ان تحریروں اور نوشتوں کاذکر معتبر کتب حدیث میں محفوظ ہے لیکن ان کے علاوہ مختلف قبائل کو تحریری ہدایات، خطوط کے جوابات، مدینہ منورہ کی مردم شماری کے کاغذات، سلاطین وقت اور مشہور فرمانرواؤں کے نام اسلام کے دعوت نامے ،معاہدات ،امن نامے اور اس قسم کی بہت سی متفرق تحریرات تھیں جو حضرت محمّد ﷺ نے وقتا فوقتا قلم بند کر وائیں ۔مشہور ہے کہ غزوہ بدر کے بعد مدینہ میں بہت سے مسلمانوں نے لکھنا بھی سیکھ لیا اور پھر کتابت حدیث کا سلسلہ جاری ہوگیا ۔ اگر عرب کی قوم اسلام سے پہلے آن پڑھ تھی اور ان میں کسی قسم کا تعلیم کا رواج نہ تھا لیکن ایمان اور اسلام کی بدولت صحابہ میں یہ شوق پیدا ہوگیا اور ان میں بہت سے حضرات ایسے تھے کہ وہ حضرت محمد ﷺ کی زبان مبارک سے جو کچھ سنتے تھے حفظ کرنے کے ارادے سے قلم بند کر لیتے تھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ حضرت محمّد ﷺ کی احادیث کو یاد کرنے اور جمع کرنے کا کس قدر اہتمام فرماتے تھے ۔ ان کے پیش نظر حضور ﷺ کا ارشاد ہے ۔
الله تعالی اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے میری حدیث کو سنا پھر اس کو یاد کیا پھر اسی طرح آگے پہنچایا جس طرح کہ سناتھا “ ( ترمذی ، ابوداو، ابن ماجہ )
تدوین حدیث
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بعض صحابہ نے حضرت محمّد ﷺ کی زندگی میں حدیثیں لکھی تھیں ۔حقیقت خوب واضح ہے کہ تدوین حدیث کا آغاز عہد رسالت ہی میں ہو گیا تھا نہ کہ دوسری صدی ہجری میں ہیں کہ مستشرقین کہتے ہیں ۔ اسلام کے ابتدائی عہد میں احادیث نبوی پرمشتمل جو صحیفے لکھے گئے ہمارے پاس ان کا تاریخی ثبوت موجود ہے ۔ ان صحیفوں میں حضرت عبد الله بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ کا صحیفہ صادقہ بہت مشہور ہے ۔ اور اسی طرح حضرت علی رضی الله عنہ کا صحیفہ بھی تھا جس میں بہت سے احکام ومسائل درج تھے مگر اس سلسلے میں سب سے بڑی اہمیت صحفیہ ابی ہریرہ رضی الله عنہ کی ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ان کے عزیز شاگرد حضرت امام بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے ۔ یہ صحیفہ تدوین حدیث کے سلسلہ میں اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ تمام وکمال اسی طرح ہم تک پہنچ گیا ہے جس طرح ہمام رحمة الله علیہ نے اسے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا اور پھر اس کو مرتب کیا تھا ۔ اس صحیفہ کی کھوج کھاج اس طرح نکالی گئی کہ چند سال پہلے دو مخطوطے دستیاب ہوئے ۔ ایک برلن میں اور دوسرا دمشق میں جن میں کوئی بھی فرق نہ تھا ۔ جبکہ یہ صحیفہ مسند امام احمد میں مکمل طور پر محفوظ ہے ۔ نیز اس کی بیشتر احادیث بخاری کے متعلقہ ابواب میں موجود ہیں ۔ اسی طریقہ سے عصر حاضر کی تحقیقات نے حضور ﷺ کے متعدد خطوط و وثائق منکشف کردیے ہیں جن میں مقوقس مصر اور نجاشی کے نام لکھے گئے دعوت نامے مشہور ہیں ۔
تدوین حدیث کا دور ثانی
بہر حال یہ ایک واقعہ ہے کہ پہلی صدی ہجری میں تدوین حدیث کا آغاز ہوا لیکن یہی ایک حقیقت ہے کہ عام طور پر اہل عرب جو ہر چیز کو زبانی یادر کھنے کے عادی تھے ۔ انہیں لکھنا بڑا گراں گزرتا تھا ۔ جس کی سب سے بڑی وجہ تھی کہ عربوں کا حافظہ فطرت نہایت قوی تھا ۔ اور وہ جو کچھ لکھتے تھے اس سے مقصود صرف اس کو ازبر کرنا ہوتا تھا ۔ ابھی صدی ختم نہ ہونے پائی تھی اور صحابه کرام دنیا سے رخصت ہورہے تھے کہ
سن 99 جری میں جب خليفہ عمر بن عبد العزیز رحمتہ الله علیہ نے دیکھا کہ متبرک صحابہ سے دنیا خالی ہورہی ہے تو آپ کو اندیشہ ہوا کہ ان حفاظ اہل علم کے اٹھنے سے نہیں معلوم حدیث نہ اٹھ جائیں ۔ چنانچہ آپ نے فورا تمام مالک کے علماء کے نام ایک فرمان بھیجا کہ احادیث نبوی کو تلاش کر کے جمع کر لیا جائے ۔ پس اس حکم کی تعمیل میں کوفہ کے امام شبعی رحمت الله علیہ مدینہ کے امام زہری رحمتہ الله علیہ اور شام کے امام مکحول رحمتہ الله علیہ کی تصانیف وجود میں آئیں اور وہ اس عہد خلافت کی یادگار ہیں ۔ اسی طرح پہلی صدی کے آخر میں کبارآئمہ تابعین نے جمع و تدوین حدیث میں بھر پور حصہ لیا ۔
دوسری صدی ہجری میں اس سلسلے کو اتنی ترقی ہوئی کہ احادیث نبوی تو ایک طرف صحابه کرام اور اہل بیت عظام کے آثار اور تابعین کے فتاوی اور اقوال تک ایک ایک کر کے اس عہد کی تصانیف میں مرتب و مدون کر لیے گئے ۔ ان تصانیف میں سب سے نامور امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی ’ الآثار ،امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کی " موطا اور امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی جامع ہیں ۔ اس صدی میں فقہ حنفی اور فقہ مالکی کی تدوین ان احادیث و آثار کی روشنی میں مکمل ہوئی کہ جس پر صحابہ اور تابعین کامل درآمد چلا آتاتھا ۔
تدوین حدیث کا دور ثالث
تیسری صدی ہجری میں علم حدیث کا ایک شعبہ پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ محدثین نے طلب حدیث میں دنیاء اسلام کا گوشہ گوشہ چھان مارا اورتمام منتشر و بکھری روایات یکجا کیں ۔ مستند احادیث علیحدہ کی گئیں۔ صحت سند کا التزام کیا گیا ۔ اسماء الرجال کی تدوین ہوئی ۔ جرح و تعدیل کا مستقل فن بن گیا ۔ اسی دور میں صحاح ستہ جیسی بیش بہا کتابیں تصنیف ہوئیں ۔
صحاح ستہ
احادیث کی چھ صحیح ترین کتابوں کو صحاح ستہ کہتے ہیں ۔ صحاح ستہ اوران کے مولفین کی فہرست درج ذیل ہے ۔
1 صحیح بخاری
امام ابو عبد الله محمد ابن اسماعیل بخاری
( 256 جری )
2 امام مسلم
امام مسلم بن حجاج بن مسلم قشیری
( ف 261 ہجری )
3 جامع الترمذی
امام ابوی محمد بن عیسیٰ الترمذی
(ف 279 ہجری )
4 سنن ابی داود
امام ابوداود سلیمان بن اشعث
(ف 275 ہجری )
5 سنن النسائی
امام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی النسائی
( ف 303 ہجری )
6 سنن ابن ماجہ
امام ابو عبدالله محمد بن یزید ابن ماجہ القزوينی
( ف 273 ہجری )
اصول اربعہ
مندرجہ ذیل چار کتابیں فقہ جعفریہ کے مستند ترین ذخائر حدیث ہیں
1 الکافی
ابوجعفر محمّد بن یعقوب الکینی
(ف 339 ہجری )
2 من الایحضرہ الفقیہ
ابوجعفر محمد علی بن بابویہ قمی
( ف 381 ہجری )
3 الاستبصار
ابوجعفر محمّد بن الحسن الطوسی
( ف 460 جری )
4 تہذیب الاحکام
ابوجعفر محمّد بن الحسن الطوسی
(ف 460 ہجری )