انسانی دماغ کے کام کا طریقہ
دماغ کو انسانی جسم کا کنٹرول روم کہا جاتا ہے۔دماغ پورے جسم کا نظام چلاتا ہے۔دماغ جسم کے مختلف حصوں سے پیغامات کو وصول کرتا ہے اور اس پیغام کو آرڈر کی صورت میں متعلقہ حصوں کو بھج دیتا ہے۔دماغ کی آکائی نیوران ہوتی ہے جس کے زریعے یہ پیغامات کو ماصول اور بھجتے ہیں۔دماغ کے تین حصے ہوتے ہیں ہر ایک حصہ کا مختلف کام ہے۔
انسان کے دماغ میں قریبا سو ارب سے زیادہ خلیات یعنی سیل پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ ربطے میں رهتے ہیں ۔ان خلیات کے درمیان پیغام منتقل ہونے میں ایک سیکنڈ کے بھی ہزارویں حصہ میں ہو جاتے ہیں
جب انسان پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت اس کے دماغ کا وزن تقریبا ایک پونڈ یعنی آدھا کلو سے بھی کام ہوتا ہے۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب انسان چھے سال کا ہو جاتا ہے تو اب اس کے دماغ کا وزن تین پونڈ تک ہو جاتا ہے۔جب ہم باتیں کرنا سیکھ رہے ہوتے ہیں ، چلنا سیکھ رہے ہوتے ہیں ،کھڑا ہونا سیکھ رہے ہوتے ہیں ، چلنا سیکھ رہے ہوتے ہیں اور جب کام کرنا سیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہمارے دماغ کے اندر رابطوں کا ایک جال بننے لگتا ہے اور اسی لیے دماغ کا وزن بڑھ جاتا ہے۔
انسان کے دماغ میں موجود دایاں حصہ جسم کے بائیں حصہ کو کنٹرول کرتا ہے بلکل اسی طرح بایاں حصہ جسم کے دائیں حصہ کو کنٹرول کرتا ہے۔انسانی جسم کے کل وزن کا دو فیصد وزن اس کے دماغ کا وزن ہوتا ہے۔تو دماغ مکمل جسم کو ملنے والی آکسیجن کا بیس فیصد استعمال آکسیجن کرتا ہے اور پورے جسم کی انرجی یعنی توانائی کا بیس سے لے کر تیس فیصد حصہ تک استعمال کرتا ہے۔جب دماغ کوئی عمل کرنے والا پیغام کسی پٹھوں کو بھجتا ہے تو اس پیغام کی رفتار چار سو کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔دماغ میں ماجود اس کے احصابی خلیے کی موٹائی تقریبا چار میکرون تک ہوتی ہے اس کا مطلب کے ایک پن کے سرے کے برابر اس طرح کے دس ہزار خلیے ہوتے ہیں۔ہاتھی کا دماغ ہمارے دماغ کے مقابلے میں چار سے پانچ گنا بڑا ہوتا ہے۔
دماغ کو اگر آکسیجن کی فراہمی دس منٹ تک متاثر ہو جائے تو دماغ بہت نقصان ہو سکتا ہے۔انسانی دماغ میں موجود خون کی نالیوں کی لمبائی سات سو کلو میٹر تک ہوتی ہے۔جب انسان کے دماغ میں یعنی ذہن میں کوئی خیال آتا ہے یا کچھ یاد اتا ہے تو دماغ کے دو یا اس سے زیادہ خلیوں کے درمیان رابطہ قائم ہوتا ہے۔جب ہم جاگ رہے ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ تقریبا پچیس واٹ کی بجلی پیدا کرتا ہے مطلب اس طاقت کی بجلی سے ایک بلب روشن ہو سکتا ہے۔
ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ جب انسان پچیس سال تک ہو جاتا ہے تو اس کے دماغ پڑ بڑھاپے کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔پچیس سال کی عمر میں دماغ کے اندر موجود سیری بروس پینال کی حرکت کرنے کی رفتار بدل جاتی ہے ۔سیری بروس پینال کی یہ رفتار کی یہ تبدیلی سانس لینے اور دل کی دھڑکنوں اور بہت ساری سرگرمیوں کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ۔اس تحقیق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کے دماغ کا بڑھاپا بن وقت سے پہلے شروع ہوجاتا ہے۔
لیکن اس تحقیق سے سامنے آنی والی بات واضح نہیں ہے ۔سیری بروس پینال کی رفتار کی تبدیلی اکثر عمر رسیدہ افراد میں دیکھی گئی ہے۔