حضرت خالد بن والید راضی اللہ عنہ
حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ 592ء میں مکّہ میں پیدا ہوے۔آپ کی والدہ کا نام لبابہ صغری تھا آپ کے والد ابن المغیراہ قریش کے خاندان بنومخزوم کے سردار تھے یہ خاندان اپنی عزت،دولت ،زور آوری اور جنگی صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور تھا۔
حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ کے ابتدای چھ سال صحرا کی کھلی اور صحت بخش فضا میں گزرے پھر مکّہ میں اپنی والدہ کے پاس آگئے ۔صحرا میں ان کا مشغلہ گھڑسواری، نیزا بازی، شمشیرزنی، تیراندازی اور اونٹ کی سواری تھی۔ دوسرے خلیفہ حضرت عمرراضی اللہ عنہ اور حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ قریبی رشتے دار تھے ۔
حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ ایک کڑیل ، بہادر اور جری جوان بن کر ابھرے وہ چاق و چوبند، ہوشیار اور پھرتیلے تھے
حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ کے ابتدای چھ سال صحرا کی کھلی اور صحت بخش فضا میں گزرے پھر مکّہ میں اپنی والدہ کے پاس آگئے ۔صحرا میں ان کا مشغلہ گھڑسواری، نیزا بازی، شمشیرزنی، تیراندازی اور اونٹ کی سواری تھی۔ دوسرے خلیفہ حضرت عمرراضی اللہ عنہ اور حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ قریبی رشتے دار تھے ۔
حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ ایک کڑیل ، بہادر اور جری جوان بن کر ابھرے وہ چاق و چوبند، ہوشیار اور پھرتیلے تھے
قبول اسلام
جب 6ء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم عمرہ کرنے تشریف لاۓ تو مکّہ سے پہلے عسفان کے مقام پر قیام کیا ۔مسلمانوں کے قافلے کو روکنے کے لیے حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تو صحابہ کرم رضی اللہ عنھم کو نماز میں مشغول پایا ۔ یہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا اچھا موقع تھا لیکن وہ ایسا نا کر سکے ۔اگلے برس جب مسلمان دوبارہ عمرہ کرنے آے تو حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ کے بھائ ان کے نام ایک خط دے گے جس میں لکھا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم خصوصیت کے ساتھ تمہارے بارے میں خیال کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا خیال ہے کہ خالد دانش مند اور عقل مند انسان ہے۔اللہ جانے کیوں اب تک اسلام کی حقانیت کو نہیں پاسکا۔ اگر وہ اسلام میں آ کر اپنی قوت کا مظاہرہ کرے تو اس کے لیے اچھا ہو گا ۔
بھائ کے خط نے انھیں متاثر کیا پھر عثمان بن طلحہ راضی اللہ عنہ کے ساتھ قبول اسلام کے لیے مدینہ گئے ۔
مدینہ پہنچ کر ان کی ملاقات عمرو بن العاص راضی اللہ عنہ سے ہوئی جو خود اسلام لانے کے لیے مدینہ آے تھے ۔ جب حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ مسجد نبوی پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بہت شفقت اور خوشی کا اظہار فرمایا۔ کلمہ پڑھنے کے بعد حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ نے صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے اپنی بخشش کی دعا کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کے لیے دعا فرمائی ۔
بھائ کے خط نے انھیں متاثر کیا پھر عثمان بن طلحہ راضی اللہ عنہ کے ساتھ قبول اسلام کے لیے مدینہ گئے ۔
مدینہ پہنچ کر ان کی ملاقات عمرو بن العاص راضی اللہ عنہ سے ہوئی جو خود اسلام لانے کے لیے مدینہ آے تھے ۔ جب حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ مسجد نبوی پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بہت شفقت اور خوشی کا اظہار فرمایا۔ کلمہ پڑھنے کے بعد حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ نے صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے اپنی بخشش کی دعا کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کے لیے دعا فرمائی ۔
جنگ موتہ
جب حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو ان دنوں مدینہ میں بحیرہ مردار کے مشرق میں واقع موتہ نامی مقام کی جانب اسلامی لاشکر بھیجنے کی تیاریاں جاری تھی لہٰذا حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ بھی خوشی سے لشکر میں شامل ہو گئے۔ اس جنگ کی وجہ یہ تھی کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے دعوت اسلام کا۔ خط دے کر اپنا ایک سفیر بصری بھیجا تھا۔ یہ علاقہ رومی سلطنت کا حصہ تھا لیکن راستے میں موتہ کے حاکم نے سفیر اسلام حارث بن راضی اللہ عنہ کو شہید کروا دیا۔ جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اس جنگ کے لیے تین ہزار مجاہدین پر مشتمل لشکر تیار کر کے روانہ کیا۔ لشکر اسلام کے سپہ سالار حضرت زید بن ہارثہ راضی اللہ عنہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ھدایت کی تھی کہ اگر زید شہید ہو جائیں تو جعفر طیار راضی اللہ عنہ سپہ سالار ہوں گے ، ان کی شہادت کے بعد عبداللہ بن رواحہ راضی اللہ عنہ لشکر کی قیادت کریں گے ،اگر یہ بھی شہید ہو جائیں تو پھر مسلمان اپنی مرضی سے سپہ سالار منتخب کر لیں۔
جنگ میں ایک کے بعد ایک تمام سپہ سالار شہید ہو گئے تو مسلمانوں نے مشورہ کر کے حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ کو سپہ سالار بنا لیا۔ اسلامی فوج کے سامنے رومی فوج اور عیسائی عرب قبائل تھے جن کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔ حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ نے جنگی حکمت سے میدان جنگ میں استحکام پیدا کیا اور دشمن پر مسلمانوں کی ہبیت بٹھا دی اور جنگی حکمت سے اسلامی فوج کو پیچھے ہٹا کر بحفاظت عرب کے صحر سے نکل لاے لیکن رومی فوج اسے کوئی چال سمجھی اور فرار ہو گی ۔
فوج کے مدینہ آنے پر استقبال کیا گیا ۔جنگ موتہ میں بہادری سے لڑنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حضرت خالد بن ولیدراضی اللہ عنہ کو سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا لقب دیا ۔
فتوحات
جنگ موتہ کے بعد حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ فتح مکّہ، غزوه حنین،غزوه تبوک اور طائف کے معرکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی کمان میں لڑتے رہے . حضرت ابوبکر راضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ نے اسلام چھوڑ کر بت پرستی شروع کرنے والوں کے خلاف کامیاب کاروائی کی اور نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسلیمہ کذاب کو فوجی کروائی میں ہلاک کیا۔ جب عرب کی شورش پر قابو پا لیا گیا تو حضرت ابوبکر راضی اللہ عنہ نے فوجی مہموں کا دائرہ پھیلایا اور حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ نے دریاے فرات کے ساتھ ساتھ کامیاب فوجی مہم شروع کی اور فتوحات حاصل کی ۔ شام کی مہم میں مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہوئی ۔
حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ کی فوج نے ایک مہینے کا محاصرا کرنے کے بعد 634ء کو دمشق فتح کیا۔
حضرت ابو بکر راضی اللہ عنہ اس دوران رحلت فرما گئے اور حضرت راضی اللہ عنہ خلیفہ بن گئے ۔
ایک زریں عہد کا اختتام
الگ ہونے بعد حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ چار سال زندہ رہے اس دوران انہوں نے شام میں قیام کیا ۔حضرت خالد بن راضی اللہ عنہ کا انتقال 642ء میں ہوا۔ شام کے شہر حمص میں ان کا مزار خالد بن ولید مسجد عمارت کے اندر ہے۔ قبر کے کتبے پر 50 بڑی جنگوں کے نام لکھے ہوے ہوئے ہیں جن میں انہوں نے مسلسل کامیابیاں حاصل کی ۔
انہیں ہر معرکہ میں کامیابی ملی لیکن وہ شہادت کی تمنا دل میں لیے ہوے اس دنیا سے رخصت ہو گے۔