رحمت اللعالمین ﷺ
سید یا آدم صفی اللہ سے لے کر سیدنا عیسی روح اللہ تک تمام انبیا کرام بیشمار معجزات اور عمدہ صفات سے مزین و مرصع تھے۔ان معجزات و صفات سے لاکھوں انسان فیض یاب ہوکر ایک خدا کی پوجا کرنے والے بن گئے مگر ان تمام انبیا کی برگزیدہ جماعت میں کوئی ایسا نہ تھا جس میں تمام انبیا کے معجزات و صفات بیک وقت اور بیک ذات جمع ہوں بلکہ ان سب کے آخر میں تشریف لانے والے حضور ختم الرسل محمد عربی ﷺ ہی وہ زات گرامی ہیں کہ جن میں تمام انبیاء کرام کی جملہ صفات اور معجزات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔ رسول اکرم کی ان تمام صفات میں صفت رحمت کو خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے ۔ آپ ان کی ساری تعلیمات ، خلوت ، جلوت ،نجی ، گھریلو معاشی ،سیاسی اور معاشرتی زندگی پر اس صفت کا خاص پر تو ہے ۔آپ ﷺ کا جسم اطہر ، آپ ﷺ کی تعلیمات ، آپ ﷺ کا قول وعمل ، آپ کا لایا ہوا دین ، کتاب اور سنت ، نظام شریت ، مساجد ، دینی ادارے ، گفتگو ، اٹھنا بیٹھنا ، چلنا ، رکنا ، کھانا،پینا اور شادی بیاہ اور حضور ﷺ کے تمام متعلقین سراپا رحمت ہیں ۔
رحمت اللعالمين
رحمت کے معنی رحم ، نرمی ، شفقت ، ہمدردی ، محبت ، پیار اور خیر خواہی کے ہوتے ہیں ۔ لفظا رحم بھی انہی معنوں میں آتا ہے چونکہ بچہ ماں کے رحم میں ہوتا ہے اس لئے ماں کو اس سے بے پناہ شفقت اور محبت ہوتی ہے ۔ جسم کا حصہ اور فطری تعلق ہونے کی بنا پر وہ اس سے رحمت و رافت سے پیش آتی ہے ۔
عاملین سے مرادتمام جہان اور کائنات کے تمام طبقے ہیں ۔ رحمت اللعالمین کا مطلب ہے کہ جو ذات کائنات کی ہر چیز ، ہرمخلوق اور ہر طبقہ سے رحمت ، پیار ، نری ، شفقت ، محبت اور ہمدردی سے پیش آئے ۔
کوئی شخص پیغمبر کے بغیر ہدایت و راہنمائی حاصل نہیں کرسکتا ۔ ہدایت الله تعالی کی خاص رحمت ہے ۔ اس لئے کہ پیغمبر خدا کی رحمت کا خاص مظہر ہوتا ہے جس قوم اور علاقے میں کسی نبی کو بھیجا گیا گویا اسے اللہ تعالی کی خاص رحمت سے نوازا گیا ہے ۔ سابقہ انبیاء ورسل خاص خاص علاقوں اور حدود اوقات کے لئے آئے ۔ اس لئے ان کی رحمت بھی مکان و زماں کی پابندیوں میں محدود تھی ۔ کوئی نبی ایک بستی کے لئے کوئی دو یا چاربستیوں کے لئے رحمت تھا ۔ کسی نبی محترم کی رحمت دس سال کے لئے اور کسی کی اس سے کم یا زیادہ مدت کے لئے تھی مگر رسول اکرم ﷺ کی نبوت ورسالت مکان و زماں کی پابندیوں سے آزاد ہے ۔ آپ ﷺ کی نبوت مکان اور زماں کے اعتبار سے لامحدود ہے ۔ روئے زمین کے بسنے والے ہر انسان ، ہر مخلوق، ہر حجر اور ہر چیز کے لئے ہے ۔ آپ ﷺ کی نبوت ہمہ گیر ، جامع ،اکمل ، تاریخی ،دوامی اور ہمیشہ کے لئے ہے ۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی اور رسول نہیں آسکتا ۔ انبیاء سابقین کی طرح آپ ﷺ کی نبوت و رسالت بھی سراپا رحمت و رافت ہے ۔ آپ ﷺ کی رحمت و برکت نبوت کے ساتھ وابستہ ہونے کے سبب ہمیشہ اور تمام مخلوقات ، جمادات ،نباتات ، حیوانات ، اور جن وانس کے لئے ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے ۔
اور نہیں بھیجا ہم نے آپ ﷺ کو مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر
جس طرح کلمہ طبیہ میں لا الہ الا اللہ کہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ کائنات میں الله تعالی کے سوا کوئی نہیں اور ہر قسم کے جھوٹے معبودوں کی نفی کر کے صرف الله وحده لا شریک کی وحدانیت کا اثبات کیا گیا ہے ، اسی طرح مندرجہ بالا آیت میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی نبوت اور آپ ﷺ کا قول وفعل کائنات کی ہر چیز کے لئے سراپارحمت ہی رحمت ہے ۔ قیامت تک آنے والے انسانوں ، جانوروں ، ہر ذرہ اور کرہ کو آپ ہی سے فائندہ پہنچ سکتا ہے جبکہ آپ ﷺ کی طرف سے کسی کو کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ۔
مزید پڑھیں
وقت کی ضرورت و اہمیت
دنیا میں جب کوئی انسان کسی دوسرے کے ساتھ کسی معاوضہ کا خیال رکھے بغیر نیکی کرتا ہے تو اس کی تہہ میں رحم کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے اسی جذبہ کے تحت ہی وہ بے لوث خدمت کرتا ہے اگر یہ جذبہ اور احساس ہمدردی نہ ہو تو شقاوت ، سنگ دلی اور بے رحمی کا مظاہرہ ہوگا ۔ اسلام کی اخلاقی تعلیم میں اسی لئے تو اس جذبہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ الله تعالی کے ذاتی نام اللہ کے بعد جو نام سب سے زیادہ اہم اور عام ہیں وہ رحمان ( بڑا رحم والا ) اور رحیم ( رحم سے بھرا ہوا ) ہیں ۔ قرآن کی ہر سورت کا آغاز بسم الله الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ ہر کام شروع کرنے سے قبل رحمان و رحیم کا نام لیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی تمام جمالی اورجلالی صفات میں بھی صفت رحمت نمایاں نظر آتی ہے ۔
قول وفعل میں جتنی تاثیر رحم و کرم اور ہمدردی سے پیدا ہوتی ہے رعب ، دبدبہ ، تحکم اور سختی سے پیدا ہونے والی تاثیر اس کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتی ۔ دنیا میں اگر کہیں خلوص ، ہمدردی ، محبت اور رحم و کرم کے آثار ملتے ہیں تو وہ صرف اسی رحمت کے آثار و پرتو ہیں ۔ اگر رحمت و مودت نہ ہوتی تو دنیا میں امن اور سکون نہ ہوتا ۔ یہ زمین جنگ و جدال کا تپتا ہوا صحرا ہوتی اور چپے چپے پر خانہ جنگی اور خون آشامی کا سا سماں ہوتا ۔ بخاری شریف میں رسول ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے اللہ تعالی نے رحمت کے سو ٹکرے کئے ہیں جن میں سے ننانوے ٹکرے اپنے پاس رکھ لئے اور زمین پر صرف ایک ٹکرے کو اتارا اور اسی ایک ٹکڑے کی بنا پر لوگ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ گھوڑا اس خوف سے اپنے بچے پر پاؤں نہیں رکھتا کہ کہیں اسے صدمہ نہ پہنچ جائے ۔
الله رب العزت کی یہ بے پایاں رحت براہ راست ہی نازل ہوتی رہتی ہے اور اس کے بندوں کے ذریعے بھی ۔ رحمت الہی ،محاسن اخلاق اور عمدہ اوصاف کے سب سے بڑا مظاہرہ انبیا ء علیہم السلام ہیں ۔ ان صفات حمیدہ سے متصف تمام انبیاء میں سب سے اعلی و اشرف رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہے ۔ قرآن حکیم نے رسول اکرم ﷺ کی اس صفت کو یوں بیان کیا ہے
یقینا تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے تمہاری بھلائی پر حریص ہیں اور اہل ایمان پر بہت شفیق اور رحیم ہیں ۔
رحمت کائنات
کفروشرک اور بدعت و ضلالت ، انسانیت کے لئے ہلا کت و تباہی کا سامان ہے ۔ قرآن ،آسمانی صحیفے ، نبوت اور ہدایت ، انسانوں کے لئے آبادی ، ترقی اور رحمت کا باعث ہیں ۔ کافر ، مشرک اور بدعتی رحمت سے محروم ہوتا ہے ۔حضور ﷺ کی فطرت میں ہی رحمت ودیعت کر دی گئی تھی ۔ انسانیت کو کفر وشرک جیسے گڑھے میں دیکھ کر جذ بہ رحمت تڑپ اٹھا ۔ اسے ضلالت و گمراہی سے بچانے کی فکر آپ ﷺ کو غار حرا میں لے گئی ۔ آخرکار حضور ﷺ رحمة اللعالمین کے لقب سے نبوت و رسالت کے منصب جلیلہ پر فائز ہو کر گمراہی کو جڑوں سے اکھیڑنے اور رحمت بھری ہدایت کو بکھیرنے کے لئے مامور ہوئے ۔ لوگوں کو زمین و آسمان اور جن و انس کی تخلیق پر غور وفکر کی دعوت دی ۔ بے شمار خداؤں سے نجات دلا کر ایک اللہ کی عبادت کا راستہ دکھایا ۔ انسان ، سورج ، چاند ستاروں ،حشرات الارض ، سانپ بچھو ، آگ پانی ،شجر وجر اور جنڈی وکنڈی کو پوجنے والوں پر رحم کھاتے ہوئے ایک معبود حقیقی کے سامنے جھکا دیا ۔
آپ ﷺ کی رحمت کے بے شمار مظاہر ہیں ۔ غریبوں ، مزدوروں ، بوڑھوں ، والدین ، مظلوموں ، یتیموں ، مسافروں ، مہمانوں، فقیروں ، اپاہجوں ، محذورون ، خاص و عام انسانوں، بیواؤں ، غلاموں ، لونڈیوں ، بچوں ، عورتوں ، حیوانوں ، درختوں ، پتھروں ، اور تمام چیزوں پر آپ ﷺ کا سایہ رحمت جلوہ فگن نظر آتا ہے ۔ آپ کا ہادی و رہنما بن کر تشریف لانا گمراہوں کو راه یاب کرنا اور توحید و رسالت کا ماننے والا بنانا ہی رحمت عامہ اور خاصہ ہے ۔
آپ ﷺ نے غریبوں کی مدد کرنے ، ان کا مالی تعاون کرنے اور امیروں سے زائد از ضرورت دولت زکوت وصدقات کی شکل میں لے کر غریبوں میں تقسیم کر کے ان کی غربت کے خاتمہ کا حکم دیا ۔
آپ ﷺ نے غربا کو معاشرہ میں باعزت مقام دے کر امراء کے برابر کھڑا کیا ۔ اسلام کے لئے غریبوں کی خدمات کے پیش نظر اپنے بارے میں اکثر دعا فرمایا کرتے تھے ۔اے اللہ مجھے غریب زنده رکھیو ، غریبی کی حالت میں میرا انتقال کیجیو اور روز قیامت کے غریبوں میں اٹھائیو۔
آپ ﷺ نے مسجد نبوی کی تعمیر اور خندق کی کھدائی کے موقع پرخود بھی مزدوروں کی طرح کام کیا اور آخر وقت تک مزدوروں پر رحم کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین فرماتے رہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا
مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دیتے رہنا
آپ ﷺ نے مزدوروں کو اللہ کا حبیب قرار دیا اور غلاموں پرظلم کرنے سے خوف خدا کا احساس دلا دیا ۔ تیموں کی پرورش ، ان کے مال کی حفاظت اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں رحمت کائنات کا وافر حصہ ہے ۔ آپ نے خود بھی ان پر رحمت و شفقت کے ڈھیر بکھیر دیئے اور تمام مسلمانوں کو ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین فرمائی ۔ ان کے مال کے کھانے کو جہنم کی آگ کے کھانے کے مترادف قرار دیا ۔
مسافروں اور مہمانوں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرنے کا حکم دیا ۔ مہمان کی خاطر تواضع میں خود بھی کسی قسم کی کوئی کسر نہیں رکھی اور امت کو بھی حسب قدرت اس کی خاطر مدارت کی تلقین فرماتے ہوئے اس کی آمد اور وجود کو خدا کی رحمت کے مترادف قرار دیا ۔ آپ ﷺ مسافروں کی پوری رہنمائی اور مدد فرماتے رہے اور یہ تعلیم امت کو بھی دی ۔
بوڑھوں اور معذوروں پر رحمت وشفقت کا سایہ آپ ﷺ نے ہمیشہ تانے رکھا ۔ بوڑھوں کا وزن اٹھانا،انہیں گھروں تک پہنچانا ،معذوروں کی مالی و جسمانی مدد کرنا ، آپ ﷺ کی عادت مبارکہ کا خاص الخاص معمول تھا ۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے
جس نے میری امت کے چھوٹے پردست رحمت نہیں رکھا اور جس نے میری امت کے بڑے کی عزت و توقیر نہیں کی وہ میری امت میں سے نہیں
مکّہ میں ایک بوڑھی عورت سر پرایک وزنی گٹھڑی اٹھائے بھاگی جارہی تھی ۔حضورﷺ نے اسے دیکھا تو دوڑنے کی وجہ بھی ۔ اس نے بتایا کہ محمّد ﷺ سے ڈر کر بھاگی جاری ہوں کہ کہیں وہ مجھ سے میرا مذہب نہ چھڑا دے ۔ آپ ﷺ نے اس بڑھیا سے وہ وزنی گٹھڑی لے لی اور ساتھ چل دیئے ۔ راستے بھر وہ عورت حضرت محمد ﷺ کو مخلظات سناتی رہی ۔ آپ ﷺ بڑے حوصلہ سے یہ سب کچھ سنتے رہے اور بڑھیا کو منزل مقصود پر پہنچا کر واپس ہونے لگے تو بڑھانے پوچھا آپ ﷺ اپنی مزدوری تو لے لیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مزدوری کیسی ؟ یہ تو میرا فرض تھا ۔ بوڑھی نے کہا کہ اپنا نام تو بتا دیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بوڑھی ماں ! میں وہی محمد ﷺہوں جس کے خوف سے تو بھاگ کر یہاں آئی ہے ۔ یہ سن کر وہ بہت شرمندہ ہوئی ، کہنے لگی کہ آپ ﷺ واقعی ایک نبی برحق ہیں جو اپنے دشمنوں پر بھی اتنی وسیع رحمت و شفقت سے پیش آتے ہیں ۔ آپ ان کے اس جذبہ کی وجہ سے وہ عورت مسلمان ہوگئی
مکّہ میں ایک بوڑھی عورت سر پرایک وزنی گٹھڑی اٹھائے بھاگی جارہی تھی ۔حضورﷺ نے اسے دیکھا تو دوڑنے کی وجہ بھی ۔ اس نے بتایا کہ محمّد ﷺ سے ڈر کر بھاگی جاری ہوں کہ کہیں وہ مجھ سے میرا مذہب نہ چھڑا دے ۔ آپ ﷺ نے اس بڑھیا سے وہ وزنی گٹھڑی لے لی اور ساتھ چل دیئے ۔ راستے بھر وہ عورت حضرت محمد ﷺ کو مخلظات سناتی رہی ۔ آپ ﷺ بڑے حوصلہ سے یہ سب کچھ سنتے رہے اور بڑھیا کو منزل مقصود پر پہنچا کر واپس ہونے لگے تو بڑھانے پوچھا آپ ﷺ اپنی مزدوری تو لے لیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مزدوری کیسی ؟ یہ تو میرا فرض تھا ۔ بوڑھی نے کہا کہ اپنا نام تو بتا دیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بوڑھی ماں ! میں وہی محمد ﷺہوں جس کے خوف سے تو بھاگ کر یہاں آئی ہے ۔ یہ سن کر وہ بہت شرمندہ ہوئی ، کہنے لگی کہ آپ ﷺ واقعی ایک نبی برحق ہیں جو اپنے دشمنوں پر بھی اتنی وسیع رحمت و شفقت سے پیش آتے ہیں ۔ آپ ان کے اس جذبہ کی وجہ سے وہ عورت مسلمان ہوگئی
قدم قدم پر برکتیں نفس نفس کی رحمتیں
جہاں جہاں وہ شفیع عاصیاں گزر گیا
جہاں نظر نہیں پڑی وہاں ہے رات آج تک
وہیں وہیں سحر ہوئی جہاں جہاں گزر گیا
اسلام میں خاندانی زندگی کی اہمیت
حضرت نوح علیہ السلام اور کشتی
جہاں جہاں وہ شفیع عاصیاں گزر گیا
جہاں نظر نہیں پڑی وہاں ہے رات آج تک
وہیں وہیں سحر ہوئی جہاں جہاں گزر گیا
اسلام میں خاندانی زندگی کی اہمیت
حضرت نوح علیہ السلام اور کشتی