نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پاکستان میں سیلاب اور آندھیاں کیوں آتی ہیں؟

پاکستان میں سیلاب اور آندھیاں کیوں آتی ہیں نیز ان کے نقصانات سے بچاؤ کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جاسکتی ہے

سیلاب کا مفہوم 


دریاؤں اور بالوں میں پانی کی سطح کا اتنا زیادہ بلند ہو جانا کہ وہ دریاؤں اور گاوں کی گزر گاہ توڑ کر باہر نکل جائے اور دور دور تک پھیل جائے تو اسے سیلاب کہاجاتا ہے ۔

پس منظر

ہمارے ملک کی معیشت زرعی ہے ملک کی 70 فی صد آبادی کازریعہ معاش بھی کاشت کاری ہے ۔صوبہ سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقے کاشت کاری کے بہترین علاقے سمجھے جاتے ہیں ۔ ہمارے ملک کے زرئی علاقے میں بارش 20 انچ سالانہ سے بھی کم ہوتی ہے ۔ یہ مقدار زری نقطہ نگاہ سے ناکافی سمجھی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں بارشوں کے بارے میں یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کس مہینہ میں کب اور کتنی ہوگی ۔ جن ایام میں کاشت کاری کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اس دوران میں بارش سے کافی پانی نہیں ملتا ۔ پانی کی اس کمی کو ہمارے ملک کا سب سے بڑا دریا دریائے سندھ اور اس کے مشرق و مغربی معاونین پورا کرتے ہیں ۔ پنجاب اور سندھ کی زرخیزی کاسبب یہی دریا ہیں لیکن بعض اوقات ان دریاؤں میں پانی کی زیادتی سیلاب کا سبب بنتی ہے ۔ جس سے بہت سے علاقوں میں جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے ۔یہ سیلاب ملکی معیشت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔
پاکستان میں سیلابوں کے آنے کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں ۔

مون سون ہوائیں

سیلاب زیادہ تر سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں آتے ہیں۔ جون اور جولائی کے مہینوں میں بحیرہ عرب کی مون سون ہوائیں مری اور اس کے آس پاس کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر پہاڑوں پر خوب بارش برساتی ہیں اور ان بارشوں کا پانی دریاؤں اور نالوں کے زریعے بڑی تیزی سے میدان کی طرف آتا ہے ۔ اس موسم میں خلیج بنگال سے آنے والی مون سون ہوائیں پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں میں بارش برساتی ہیں ۔ پاڑی اور میدانی علاقے کی بارشیں سیلاب کا سبب بنتی ہیں ۔

دھوپ کے اثرات

پاکستان دریائے سندھ اور اس کے مشرقی اور مغربی معاونین کا طاس کھلاتا ہے ۔ اس کے مشرقی معاونوں میں راوی ، چناب ، جہلم اور ستلیج ہیں اور اس کے مغرب میں دریائے سوات ، پنجگور ،ٹوچی، گومل ،کرم اور بولان شامل ہیں ۔ دریائے سندھ کے مشرقی اور مغرب معاونین کوہ ہمالیہ اور اس کی شاخ کوہ قراقرم سے نکلتے ہیں اور دریائے سندھ کا ایک اور مغربی معاون دریائے کابل افغانستان کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے ۔ ان تمام دریاؤں کے منبچے پہاڑوں کی برف پوش چوٹیوں میں ہیں ۔ مئی، جون اور جولائی کے مینوں میں ان پہاڑوں پر دھوپ خوب چمکتی ہے جس سے برف بڑی تیزی سے پگھلتی ہے اور بڑی مقدار میں پانی دریاؤں میں آجاتا ہے ۔ پانی کی کثرت اور تیزی کناروں کو توڑنے کا باعث بنتی ہے ۔

دریاؤں کی گزرگاہوں میں رکاوٹ

دریائے سندھ اور اس کے مشرقی اور مغربی معاونین بلند وبالا پہاڑوں سے نکلتے ہیں ۔ پہاڑوں کی چوٹیوں سے آنے والا پانی بڑی طاقت سے نشیب کی طرف بہتا ہے اور بڑی مقدار میں ریت، کنکر اور مٹی اپنے ساتھ بہا لاتا ہے ۔ میدانی علاقوں میں ان دریاؤں کی رفتار سست ہو جاتی ہے ۔ یہ کنکر اور مٹی ان دریاؤں کی تہ میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ اس طرح دریاؤں کی گزرگاہیں اٹ جاتی ہیں ۔ جب زیادہ مقدار میں پانی آتا ہے تو کناروں سے چھلک جاتا ہے اور آفت مچاتا ہے ۔

نباتات کی کمی

دریائے سندھ اور اس کے مشرقی معاونین کے راستے میں تھوڑی سی نباتات ہے جو پانی کی رفتار کو سست کرنے میں مدد دیتی ہے ۔ لیکن مغربی معاونین کا راستہ تو بالکل چٹیل پہاڑوں میں سے ہے ۔ جہاں درخت دور دور نظر نہیں آتے ۔ بارش کا پانی تیزی سے پہاڑوں سے دریاؤں میں آجاتا ہے ۔ یہ شدت و ریاؤں کے کنارے کاٹ دیتی ہے اور پانی اور دور پھیل کر کھیتی باڑی اور آباو علاقے کو تباہ کردیتا ہے ۔ ڈیرہ غازی خاں ، راجن پور اور بلوچستان میں عموما " پہاڑوں پر نباتات کی عدم موجودگی سے سیلاب آتے ہیں ۔
بچاؤ کی تدابیر

جدید آلات کا استعمال

سیلاب کے نقصانات سے بچاؤ کی سب سے بڑی تدبیر یہ ہے کہ ہمیں محکمہ موسمیات کو جدید خطوط پر منظم اور جدید آلات سے لیس کرنا چاہیے تاکہ میدان اور پہاڑی علاقوں کی بارشوں کا بروقت پتہ لگ سکے ۔ ڈیموں اور بیراجوں میں پانی کے اخراج پر کڑی نظر رکھنی چاہیے جونی پانی غیر معمولی طور پر چڑھنے لگے اس کی اطلاع آس پاس کے لوگوں کو فورا کردی جائے تاکہ وہ اپنے مال و اسباب اہل خانہ اور حیوانات کو محفوظ مقام پر پہنچا سکیں ۔


مزید پڑھیں 

زرائع ابلاغ کا استعال

سیلاب کے نقصانات سے بچاو میں ذرائع ابلاغ ٹی ۔وی اور ریڈیو بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ان اداروں کو سیلاب کے دنوں میں موسم کا حال اور مختلف ڈیموں اور بیراجوں سے پانی کے اخراج کی خبریں نشر کرنی چاہئیں اور خطرے کی صورت میں لوگوں کو سیلاب کی زد میں آنے والے علاقوں سے محفوظ مقامات پر چلے جانے کے اعلانات بروقت نشر کرنے چاہئیں ۔

آبادی کا بروقت انخلاء

حکومت کو سیلاب زدہ یا متوقع سیلاب زدہ علاقوں پر کڑی نظر رکھنی چاہئے اور لوگوں کو اپنے وسائل سے یہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جائے اور جو اس کی طاقت نہ رکھتے ہوں انہیں حکومت کے ذرائع سے محفوظ مقامات پر پہنچادیا جائے اس سلسلے میں فوج خصوصا " نیوی کی چھوٹی کشتیاں اور ہیلی کاپٹر استعمال کئے جائیں۔

پشتوں کی تعمیر و مرمت

پنجاب اور سندھ میں بار بار کے سیلابوں سے عوام اور حکومت کو اندازه ہو گیا ہے کہ سیلاب کا زور کن کن علاقوں میں زیادہ ہوتا ہے ۔ اس لئے دریا اور نالوں کے پانی کو ان کی گزرگاہ تک محدود رکھنے کے لئے ان پشتوں کی مرمت کرنی چاہے اور جہاں ضرورت ہو مزید پشتے تعمیر کرنے چاہے تا کہ بڑے شہر اور دیہات سیلاب کی زد سے محفوظ رہ سکیں- شاہدرہبند اور محمود بوٹی بند شہر لاہور کو راوی کے سیلاب سے بچاؤ میں مدد دے رہے ہیں ۔

کثیر المقاصد ڈیموں کی تعمیر

سیلاب اور دریاؤں کا فالتو پانی جمع کرنے کے لئے پاکستان میں کئی ڈیم موجود ہیں جن میں تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم، ہب ڈیم اور راول ڈیم بہت اہم ہیں ۔ حالات کے مطابق ان ڈیموں میں مزید پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ ڈیم تعمیر کر کے سیلاب کے پانی کو بجلی پیدا کرنے اور آبپاشی کے لئے استعمال میں لایا جاسکتا ہے ۔ اس طرح عوام کو بھی سیلاب کے نقصانات سے محفوظ کیا جاسکتاہے ۔

محکمہ سیلاب کی تنظیم نو

تمام صوبائی حکومتوں نے سیلاب کے لئے محکمےقائم کر رکھے ہیں ۔ ان کاموں کو مزید منظم کرنے اور ان کو جدید آلات سے لیس کرنے کی گنجائش ہے کہ اس کی موثر کارکردگی سے سیلاب کے نقصانات پر قابو پایا جاسکے ۔

شجرکاری

سیلابوں کو روکنے کے لئے وسیع پیمانے پر دریاؤں کی گزرگاہوں کے قریب شجرکاری کی ضرورت ہے ۔ درخت زمین کو مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں اور پانی کے بہاؤ کو مدھم کرتے ہیں ۔ درخت لگا کر سیلاب کے نقصانات پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔

فلاعی اداروں کی حوصلہ افزائی  

سیلاب کے نقصانات کم کرنے میں فلاحی ادارے بھی مفید ثابت ہو سکتے ہیں ۔ حکومت کو ان فلاعی اداروں کی مدد اور حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ۔

سڑکوں اور پلوں کی تمیر

دریاوں اوں اور پہاڑوں کے دامن میں واقع سڑک اور ریلوے لائن کی تعمیر کی بلند سے بلند رکھی جائے ۔ تاکہ سیلاب کی صورت میں آمدورفت کا نظام معمول کے مطابق بحال رہے اور لوگوں کو سیلاب سے بچنے کا موقع مل سکے ۔

پناہ گاہوں کی تعمیر

دریاؤں کے کناروں پر آباد دیہاتوں کے لئے کنکریٹ اور فولاد کی مضبوط پناہ گاہیں تعمیر کی جائیں ۔ عام حالت میں ان پناہ گاہوں کو پرائمری سکول کے طور پر استعمال کیا جاسکتاہے اور سیلاب کے دنوں میں لوگوں کو ان میں پناہ لینے کا مشورہ دیا جائے ۔

آندھی کسے کہتے ہیں ؟

کسی علاقے میں ہوا کے دباؤ کا بہت کم ہو جانا اور اردگرد کی ہوا کا بہت ہی شدت سے اس کمی کو دور کرنے کے لئے اس علاقے کا رخ کرنا آندھی کہلاتا ہے ۔

آندھی کے جلنے کا سبب ہوا کے دباؤ میں کمی

آندھی کے آنے کاسب سے سے بڑا سبب کسی جگہ کا درجہ حرارت ہو تا ہے ۔ اگر کسی مقام کا درجہ حرارت بڑھ جائے تو وہاں کی ہوا گرم ہو کر اوپر اٹھتی ہے اور وہاں ہوا کا دباو تیزی سے کم ہو جاتا ہے ۔ اس کمی کو دور کرنے کے لئے اردگرد کی ہوا تیزی سے اس کی جگہ لینے کے لئے آتی ہے اور ہوا کی کی آمد آندھی کا سبب بن جاتی ہے ۔ دو مقامات پر ہوا کا فرق اور انہی دو
مقامات کے درمیان فاصلہ آندھی کی رفتار پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اگر دو مقامات پر ہوا اس کے دباؤ میں کم فرق ہے اور انہی دو مقامات کے درمیان فاصلہ زیاد ہے تو آندھی کی رفتار کم ہوگی ۔ ہوا کے دباؤ کا فرق زیادہ ہے اور فاصلہ کم ہے تو آندھی کی رفتار بہت ہی تیز ہوگی ۔ ہوا کے دباؤ میں کمی کا علاقہ سب سے زیادہ راجستھان میں بنتا ہے ۔ اسی وجہ سے سب سے زیاده اندھیاں راجستھان کے علاقے میں آتی ہیں اور اس کے اثرات پاکستان کے علاتے چولستان میں نظر آتے ہیں ۔ آندھی کی کوئی خاص سمت نہیں ہوتی یہ بڑی تیزی سے اپنی سمت تبدیل کرتی ہے ۔ پاکستان میں تھل ، چولستان اور تھرپارکر کے علاق عموما " آندھیوں کی زد میں ہوتے ہیں ۔ یہاں نباتات کی بہت کمی ہے دور دور تک چٹیل میدان میں بارش بہت ہی کم ہوتی ہے ۔ اس لئے جب گرمی پڑتی ہے تو ہوا کے دباؤ میں کمی آجاتی ہے اور ہوا کے دباؤ کی یہ کمی آندھی کا سبب بن جاتی ہے ۔
آندھی سے بچاؤ کی تدابیر

جنگلات لگانا

آندھیوں سے نقصانات کے بچاؤ کا سب سے بڑا طریقہ یہ ہے کہ آندھیوں کی زد میں رہنے والے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں ۔ درخت اس علاقے کے طبی ماحول کو تبدیل کر دیں گے اور ہوا کے دباؤ میں کمی واقع نہیں ہوگی ۔

کھیتی باڑی

وہ علاقے جن میں آندھیاں زیادہ آتی ہیں ۔ وہاں نہریں نکال کر کھیتی باڑی شروع کردی جائے اور نباتات کی بہتات ہو جائے تو پھر وہاں کی آب و ہوا میں تبدیلی آجائے گی ۔ اور ہوا کے دباؤ میں کمی نہیں آئے گی اور یہی سبب آندھیوں کے نقصانات سے بچنے کا سبب بن جائے گا ۔ جنگلات اور نباتات کی بہتات بارشوں کا سبب بنے گی اور بارش کی آمد سے آندھی میں کمی واقع ہو جائے گی ۔


یہ بھی پڑھیں 




اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اسوہ حسنہ ﷺ

اسوہ حسنہ ﷺ اللہ‎ تعالی کا قانون ہے کے جب باطل سر اٹھاتا ہے تو اسے کچلنے کے لیے حق کی طاقت سامنے آتی ہے۔جب نمرود نے خدائی کا دعوی کیا تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اس دنیا میں بھجا گیا۔جب فرعون نے خدائی کا دعوی کیا تو اس کے گمنڈ کو خاک میں ملانے کے لیے خدا نے حضرت موسی علی السلام کو دنیا میں بھجا۔ ٹھیک اسی طرح عرب میں جہالت کا بازار گرم تھا۔ہر طرف جھوٹ اور باطل تھا۔ظلم و ستم عام تھا۔لوگ گمراہی میں ڈوبے ہوے تھے۔قتل و غارت عام تھی ہر طرف چوری چکاری، دھوکے بازی کا راج تھا۔بیٹی جیسی نعمت کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔اگر لڑائی ہو جاتی تو جھگڑا صدیوں تک جاری رہتا تھا۔ کہیں تھا مویشی چرانے پر جھگڑا  کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا  یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں  یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں  پھر ان کو ہدایت پر لانے کے لیے ایک بچے نے جنم لیا۔یہ ربیع اول کا مہینہ تھا۔رات کا اندھرا چھٹا اور نبیوں کے سردار پیدا ہوے جنہوں نے بڑے ہو کر دنیا میں حق قائم کیا اور پوری دنیا میں علم کی روشنی پھلا دی۔ یہ...

اسلام اور عفو و درگزر

عفوودگزر کا مطلب عفو کے معنی ہیں مٹانا ، معاف کرنا ، نظر انداز کرنا اور چشم پوشی کرنا ہیں۔عفو اور درگزر دو مترادف الفاظ ہیں۔اسلامی شریعت میں انتقام لینے اور سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود صرف اللہ کی رضا اور مجرم کی اصلاح کے لیے کسی کی لغزش ، برائی اور زیادتی کو برداشت کرتے ہے غصہ ہونے کے باوجود معاف کرنا عفو ودرگزر کہلاتا ہے۔عفو اللہ‎ کی صفت ہے اور اس کے اسمائے حسنی میں سے ہے۔معاف کرنا بلند ہمتی فضیلت والا کام ہے۔رسولﷺ کے اخلاق میں اس فعل کو بہت زیادہ بلند مقام حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ اس صفت کو اپنے بندوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ارشاد ربانی ہے معاف کرنے کی عادت ڈالو نیک کاموں کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرو عفو کا مطلب ہرگز نہیں ہے کے بدلہ یا انتقام نہ لیا جائے ۔جہاں بدلہ ناگزیر ہو جائے وہاں عفو کی بجاے انتقام لینا ہی بہتر ہے تاکہ شرپسند افراد کو اس ناجائز رعایت سے فائدہ اٹھا کر معاشرے کا امن وسکوں برباد نہ کر سکیں ۔اور دینی اور اجتماعی یا معاشرتی یا اخلاقی حدود پر ضرب نہ لگا سکیں۔ عفو درگزر کی اہمیت اسلامی اخلاق میں عفو ودرگزر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔اشاعت ا...

پاکستان میں پائے جانے والے معدنیات کی تفصیل۔

معدنیات   پاکستان میں مدنی وسائل کی ترقی کیلئے س1975 میں معدنی ترقیاتی کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا ۔معدنیات کو دھاتی اور غیر دھاتی معدینات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں دھاتی معدنیات میں شامل ہیں  لوہا تانبا کرومائیٹ پاکستان کی غیر دھاتی معدنیات میں شامل ہیں معدنی تیل قدرتی گیس خوردنی نمک چونے کا پتھر سنگ مرمر چپسم ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔ معدنی تیل انسان کے لیے معدنی تیل اور اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات کی معاشی اہمیت صنعتوں میں استعمال ہونے والی تمام معدنیات سے بڑھ چکی ہے ۔مدنی تیل کی اہم مصنوعات میں گیسولین، ڈیزل ،موبل آئل، موم اور کول تار اور مٹی کا تیل وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں تیل صاف کرنے کے کارخانے موجود ہیں۔ پاکستان میں آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے قیام کے بعد تیل کی تلاش کے کام میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان میں سطح مرتفع پوٹھوار کا علاقہ معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم خطہ ہے۔ اس علاقے کے معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم سطح ہے اس کے علاقے میں معدنی تیل کے کنوئیں بلکسر ،کھوڑ ،ڈھلیاں ،جویا میر، منوا...