نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پاکستان کی وفاقی حکومت کا انتظامی ڈھانچہ۔وفاقی حکومت کے شعبے

 صدر

1973 ء کے آئین کی رو سے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا ایک صدر ہو گا جو سربراہ مملکت اور جمہوریہ کے اتحاد کا مظہر ہو گا ۔

اہلیت

صدر کے لئے مسلمان ہونا ، عمر پینتالیس سال سے کم نہ ہونا اور قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل ہونا ضروری ہے

انتخاب

صدر مملکت کا انتخاب قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان مشترکہ اجلاس میں کرتے ہیں ۔

صدر کے عہدہ کی میعاد

آئین کی روسے صدر اپنا عہدہ سنبھالنے کے دن سے پانچ سال تک اس عہدے پر رہے گا ۔ اس میعار کے ختم ہونے پر وہ اس وقت تک صدر رہے گا جب تک نیا صدر اپنا عمده سنبھل نہیں لیتا ۔ صدارت کے لئے ایک آدی دو مرتبہ انتخاب لڑ سکتا ہے ۔ صدر کی ملک سے غیر حاضری، موت ، استعفی یا علیحدگی کے باعث صدارت کا عہدہ سینٹ کے چپرین یا قومی اسمبلی کے اسپیکر کو دیا جاتا ہے وہ نئے صدر کے آنے تک قائم مقام صدر کے فرائض انجام دیتا ہے ۔
صدر کے اختیارات

1 انتظامی اختیارات

آئین کی رو سے وفاق کے انتظامی اختیارات صدر کے نام سے استعمال کئے جائیں گے ۔ یہ اختیارات وفاقی حکومت یعنی وزیراعظم اور اس کے وزراء استعمال کرتے ہیں ۔ وفاق کا سربراہ وزیراعظم ہو گا ۔ وزیراعظم کا انتخاب قومی اسمبلی کثرت رائے سے کرتی ہے اور اس کو حکومت بنانے کی دعوت صدر دے گا

2. تقرری کے اختیارات

صوبوں کے گورنر ،سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جج اور دوسرے ججوں ،اٹارنی جزل، اڈیڑ جزل، اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین ، تینوں افواج کے سربراہوں کا تقرر اور تنخواہوں کا تعین صدر کرتا ہے ۔ وہ مجرموں کی سزا معاف یا کم کر سکتا ہے ۔

3 مقننہ کے متعلق اختیارات

آئین کی رو سے صدر قومی اسمبلی اور سینٹ کا الگ الگ بامشترکہ اجلاس بلا سکتا ہے اور اجلاس ملتوی بھی کر سکتا ہے ۔ اگر وزیر اعظم مشورہ دے تو قومی اسمبلی کو توڑ بھی سکتا ہے ۔ دونوں ایوانوں کا منظور شدہ مسودہ صدر کے دستخط سے قانون بنتا ہے ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس نہ ہونے کی صورت میں صدر صدارتی آرڈی ننس بھی جاری کر سکتا ہے یہ آرڈی ننس چار ماہ تک نافذ رہ سکتا ہے ۔ صدر ہنگائی حالت میں صوبے میں صدارتی راج قائم کر سکتا ہے ۔ آئین کی رو سے صدر کو وزیراعظم کے مشورہ پر عمل کرنا پڑتا ہے ۔

وزیراعظم

وزیراعظم وفاقی حکومت کا انتظامی سربراہ ہو گا ۔ وزیراعظم اور اس کی کابینہ اجتماعی طور پر قومی اسمبلی کے سامنے جواب دہ ہوں گے ۔

انتخاب

قومی اسمبلی ، وزیراعظم کا انتخاب کل ارکان کی اکثریت کے ووٹوں سے کرتی ہے ۔ وزیراعظم کا مسلمان ہونا ضروری ہے ۔ وزیراعظم پارلیمنٹ کے ارکان میں سے وفاقی وزیروں اور وزرائے مملکت کا تقرر کرے گا ۔

میعاد

وزیراعظم اس وقت تک اپنے عہدے پر موجود رہے گا جب تک نیا وزیراعظم یہ عہدہ نہ سمبھال لے۔

عدم اعتماد

قومی اسمبلی وزیراعظم پر عدم اعتماد کی قرار داد منظور کر سکتی ہے ۔ عدم اعتماد کی قرارداد میں متبادل وزیراعظم کے طور پر اسمبلی کے کسی رکن کا نام شامل کرنا ضروری ہے ۔ اگر قرار داد منظور ہو جائے تو وزیراعظم کو مستعفی ہونا پڑتا ہے اور نیا وزیراعظم عہدہ سنبھال لیتا ہے اگر ، قرارداد نامنظور ہو جائے تو اس کے بعد چھ ماہ تک ایسی کوئی دوسری قرارداد پیش نہیں کی جا سکے گی ۔
وزیراعظم کے اختیارات

1 انتظامی اختیارات

آئین کی رو سے وفاق کے انتظامی اختیارات اگرچہ صدر کے نام سے استعمال کیے جائیں گے لیکن در حقیقت تمام اختیارات وزیراعظم استعمال کرتا ہے جو وفاق کا انتظامی سربراہ اور ملک کا حقیقی سربراہ ہو گا ۔ وزیراعظم کابینہ کا سربراہ ہو تا ہے اور وزیروں کی تقری میں وہ بالکل آزاد ہو تا ہے ۔

2 تقرری کے اختیارات

صدر صوبائی گورنز ،ججوں ، سفیروں، اٹارنی جزل اور جزل اسلامی نظریاتی کونسل اراکین، پبلک سروس کمیشن اور تینوں افواج کے سربراہوں کا تقرر وزیراعظم کے مشورہ سے کرتا ہے ۔

3 امور داخلہ اور خارجہ کی نگرانی

وزیراعظم کا سب سے اہم فرض ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا تعین کرنا ہے ۔ تمام ملکی وبیرونی، انتظامی امور وزیراعظم کی رہنمائی میں طے پاتے ہیں ۔

4 متقنہ کے متعلق اختیارات

وزیراعظم صدر کو پارلیمنٹ کے ایک ایوان یا دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کرنے اور قومی اسمبلی توڑنے کا مشورہ دے سکتے ہیں اور صدر کو آئین کے مطابق ان مشوروں پر عمل کرنا پڑتا ہے۔

5 قانون سازی کے اختیارات 

وزیراعظم قومی اسمبلی میں اکثر پارٹی کا سربراہ ہوتا ہے ۔ اس لئے کابینہ کے پیش کردہ تمام مسودے قانون کی شکل اختیار کر لیتے ہیں -

6 مالیاتی اختیارات

ملک کے مالی استحکام کی ذمہ داری وزیراعظم پر ہوتی ہے ۔ وہ سالانہ بجٹ تیار کراتا ہے اور وزیر خزانہ کی مدد سے اسمبلی سے منظور کراتاہے

7 صولوں میں گورنر راج کا نفاز

ہنگائی حالات یا بیرونی جارحیت کی صورت میں صدر کسی صوبے میں وزیر اعظم کی مرضی سے گورنر راج قائم کر سکتا ہے اور وفاقی حکومت صوبے کے تمام یا کچھ اختیارات سنبھال سکتی ہے ۔

کابینہ

وفاقی حکومت کے ڈھانچے میں وفاقی کابینہ کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ اس میں مختلف محکموں کے وزیر اور وزیر مملکت شامل ہوتے ہیں ۔ تمام وزراء وزیراعظم کی سربراہی میں ایک ٹیم کی حیثیت میں کام کرتے ہیں ۔ تمام وزراء وزير اعظم کے تحت مختلف کاموں کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں ۔ وہ کسی صورت میں بھی وزیراعظم کی خواہش کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ اگر وہ اس کی مرضی کے مطابق عمل نہ کریں تو وزیراعظم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انہیں عہدہ سے الگ کردے ۔ وزراء کے عہدے کا انحصار وزیر اعظم کی خوشنودی پر ہوتا ہے ۔ ایک محکمہ میں گڑ بڑ تمام کابینہ کے لئے خطرناک بات ہو سکتی ہے ۔

پارلیمنٹ

مارچ 1985 ء میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کی پارلیمنٹ کانام مجلس شوری رکھ دیا گیا ہے ۔ 1973 ء کے آئین کے تحت مجلس شوری دو ایوانوں پر مشتمل ہو گی ۔ جن میں سے ایک قومی اسمبلی اور دوسرا سینٹ کہلائے گی ۔ پاکستان ایک وفاق ہے اس لئے ایوان بالا میں وفاق میں شامل تمام اکائیوں کو مساوی نمائندگی دی جاتی ہے اور ایوان زیریں میں آبادی کے لحاظ سے نمائندے منتخب کیے جاتے ہیں ۔ اس طرح اکائیوں کے مفادات کی بہتر نگہداشت ہو سکتی ہے ۔
مجلس شوری کے اختیارات

1 اقتدار اعلی


1973 ء کے آئین کی روسے پاکستان کی مجلس شوری کو وسیع اختیارات حاصل ہیں وہ در حقیقت اقتدار اعلی کی مالک ہے ۔

2 قانون سازی کے اختیارات

مجلس شوری سارے پاکستان یا اس کے حصے کے لئے قانون سازی کر سکتی ہے ۔ مجلس شوری کو وفاقی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے سے متعلق قانون بنانے کا اختیار ہو گا ۔ مجلس شوری کو مشترکہ فہرست میں شامل تمام امور کے متعلق قانون سازی کا حق ہے ۔ مجلس شوری ان علاقوں کے متعلق قانون سازی کر سکتی ہے جو کسی صوبے میں شامل نہیں ۔

3 آئین میں ترمیم

مجلس شوری کو آئین میں ترمیم کرنے کے عمل اختیارات حاصل ہیں ۔

4 انتظامی اختیارات

1973 ء کے آئین کی رو سے وزیراعظم اور وزراء مجلس شوری سے لئے جاتے ہیں ۔ وزیر اعظم اور اس کی کابینہ مجلس شوری کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے ۔ مجلس شوری کابینہ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ منظور کر کے وزارت کو مستعفی ہونے پر مجبور کر سکتی ہے ۔

5 انتخابی اختیارات

آئین کی روسے صدر پاکستان ،وزیراعظم ، چیرمین و ڈپٹی چیرمین، سپیکر، ڈپٹی سپیکر
اور عورتوں کے لئے مخصوص نشستوں کا انتخاب مجلس شوری کرتی ہے ۔

6 بجٹ کی منظوری

مجلس شوری کی منظوری کے بغیر ملک میں کوئی ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا ۔ مجلس شوری سالانہ مرکزی بجٹ کو منظور کرتی ہے تو پھر اسے ملک میں لاگو کیا جا سکتا ہے ۔

عدلیہ

1973 ء کے آئین کے تحت عدلیہ بھی مرکزی حکومت کا ایک اہم ادارہ ہے۔ سپریم کورٹ ملک میں اعلی ترین عدالت ہے ۔ اس کا قیام آئین کی روسے عمل میں لایا گیا ہے ۔

تشکیل

سپریم کورٹ میں ایک چیف جسٹ ہو گا ۔ اس کے علاوہ اس میں دیگر جج ہوں گے جن کی تعداد کا تعین پارلمینٹ کرے گی ۔

ججوں کا تقرر

چیف جسٹس کا تقرر صدر کرے گا اور ہر جج کا تقرر صدر پاکستان چیف جسٹس کے مشورہ کے بعد کرے گا ۔ سپریم کورٹ کا جج اس شخص کو مقرر کیا جاتا ہے جو پاکستان کا شہری ہو ۔ کم از کم پانچ سال ہائی کورٹ کاجج رہا ہو یا کم از کم پندرہ سال کی ہائی کورٹ میں وکیل رہا ہو۔ چیف جسٹس کی تقری صدر کرتا ہے مگر صدر اس کو معزول نہیں کر سکتا چیف جسٹس 65 سال کی عمر تک اپنے عہدے پر رہے گا سوائے اس کے کہ اسے آئین کے مطابق عہدے سے سبکدوش نہ کر دیا جائے یا وہ خود مستعفی نہ ہو جائے ۔

سپریم کورٹ کی مستقل نشست 

سپریم کورٹ کی مستقل نشت اسلام آباد میں ہوگی ۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ چیف جسٹس یا صدر کی منظوری سے دوسری جگہ بھی نشست کر سکتی ہے ۔
سپریم کورٹ کے اختیارات

1 اپیلوں کی سماعت

سپریم کورٹ کو کسی بھی ہائی کورٹ کی طرف سے دیئے گئے فیصلوں ، حتمی احکامات اور سزاؤں کے خلاف اپیلیں سننے اور ان کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے ۔

2 مشاورتی دائرہ اختیار

اگر کسی وقت صدر یہ سمجھے کہ عوامی اہمیت کے کسی سوال پر سپریم کورٹ کی رائے لی جانی چاہیے تو وہ ایسے سوال کو غور کے لئے سپریم کورٹ کے پاس بھیج سکتا ہے ۔

3۔نظرثانی کے اختارات

پارلیمنٹ کے کسی قانون یا سپریم کورٹ کے بتائے ہوئے قواعد کے تحت سپریم کورٹ اپنے کسی فیصلے یا حکم پر نظرثانی کا اختیار رکھتا ہے ۔

4 ماتحت عدالتوں پر پابندی

سپریم کورٹ کے فیصلوں کی ملک کی دوسری تمام عدالتیں پابند ہوتی ہیں

5 توہین عدالت کی سزا

سپریم کورٹ کو کسی ایسے شخص کو سزا دینے کا اختیار ہے جو عدالت کے کام میں مداخلت کرے ،رکاوٹ ڈالے ،یا حکم کی تعمیل نہ کرے ۔ عدالت کے بارے میں سیکنڈل بنائے ، زیر ساعت مقدمہ پر اثر ڈالے یا کسی اور طریقے سے توہین عدالت کا مرتکب ہو ۔

6 تقرری کے اختیارات

سپریم کورٹ صدر کی منظوری سے عدالتوں کے افسروں اور ملازموں کی تقری اور شرائط ملازمت کے قواعد بنا سکتی ہے ۔ سوال ۔ پاکستان کے آئین کے تحت صوبائی حکومت کے ڈھانچے پر تبصرہ کیجئے ۔ جواب ۔ 1973 ء کے آئین کے تحت پاکستان ایک وفاق ہے اور علاقوں کے علاوہ اس وفاق میں چار صوبے شامل ہوں گے ۔ ان صوبوں میں الگ الگ صوبائی
حکومتیں قائم کی جائیں گیں ۔




یہ بھی پڑھیں 



اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اسوہ حسنہ ﷺ

اسوہ حسنہ ﷺ اللہ‎ تعالی کا قانون ہے کے جب باطل سر اٹھاتا ہے تو اسے کچلنے کے لیے حق کی طاقت سامنے آتی ہے۔جب نمرود نے خدائی کا دعوی کیا تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اس دنیا میں بھجا گیا۔جب فرعون نے خدائی کا دعوی کیا تو اس کے گمنڈ کو خاک میں ملانے کے لیے خدا نے حضرت موسی علی السلام کو دنیا میں بھجا۔ ٹھیک اسی طرح عرب میں جہالت کا بازار گرم تھا۔ہر طرف جھوٹ اور باطل تھا۔ظلم و ستم عام تھا۔لوگ گمراہی میں ڈوبے ہوے تھے۔قتل و غارت عام تھی ہر طرف چوری چکاری، دھوکے بازی کا راج تھا۔بیٹی جیسی نعمت کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔اگر لڑائی ہو جاتی تو جھگڑا صدیوں تک جاری رہتا تھا۔ کہیں تھا مویشی چرانے پر جھگڑا  کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا  یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں  یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں  پھر ان کو ہدایت پر لانے کے لیے ایک بچے نے جنم لیا۔یہ ربیع اول کا مہینہ تھا۔رات کا اندھرا چھٹا اور نبیوں کے سردار پیدا ہوے جنہوں نے بڑے ہو کر دنیا میں حق قائم کیا اور پوری دنیا میں علم کی روشنی پھلا دی۔ یہ...

اسلام اور عفو و درگزر

عفوودگزر کا مطلب عفو کے معنی ہیں مٹانا ، معاف کرنا ، نظر انداز کرنا اور چشم پوشی کرنا ہیں۔عفو اور درگزر دو مترادف الفاظ ہیں۔اسلامی شریعت میں انتقام لینے اور سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود صرف اللہ کی رضا اور مجرم کی اصلاح کے لیے کسی کی لغزش ، برائی اور زیادتی کو برداشت کرتے ہے غصہ ہونے کے باوجود معاف کرنا عفو ودرگزر کہلاتا ہے۔عفو اللہ‎ کی صفت ہے اور اس کے اسمائے حسنی میں سے ہے۔معاف کرنا بلند ہمتی فضیلت والا کام ہے۔رسولﷺ کے اخلاق میں اس فعل کو بہت زیادہ بلند مقام حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ اس صفت کو اپنے بندوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ارشاد ربانی ہے معاف کرنے کی عادت ڈالو نیک کاموں کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرو عفو کا مطلب ہرگز نہیں ہے کے بدلہ یا انتقام نہ لیا جائے ۔جہاں بدلہ ناگزیر ہو جائے وہاں عفو کی بجاے انتقام لینا ہی بہتر ہے تاکہ شرپسند افراد کو اس ناجائز رعایت سے فائدہ اٹھا کر معاشرے کا امن وسکوں برباد نہ کر سکیں ۔اور دینی اور اجتماعی یا معاشرتی یا اخلاقی حدود پر ضرب نہ لگا سکیں۔ عفو درگزر کی اہمیت اسلامی اخلاق میں عفو ودرگزر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔اشاعت ا...

پاکستان میں پائے جانے والے معدنیات کی تفصیل۔

معدنیات   پاکستان میں مدنی وسائل کی ترقی کیلئے س1975 میں معدنی ترقیاتی کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا ۔معدنیات کو دھاتی اور غیر دھاتی معدینات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں دھاتی معدنیات میں شامل ہیں  لوہا تانبا کرومائیٹ پاکستان کی غیر دھاتی معدنیات میں شامل ہیں معدنی تیل قدرتی گیس خوردنی نمک چونے کا پتھر سنگ مرمر چپسم ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔ معدنی تیل انسان کے لیے معدنی تیل اور اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات کی معاشی اہمیت صنعتوں میں استعمال ہونے والی تمام معدنیات سے بڑھ چکی ہے ۔مدنی تیل کی اہم مصنوعات میں گیسولین، ڈیزل ،موبل آئل، موم اور کول تار اور مٹی کا تیل وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں تیل صاف کرنے کے کارخانے موجود ہیں۔ پاکستان میں آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے قیام کے بعد تیل کی تلاش کے کام میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان میں سطح مرتفع پوٹھوار کا علاقہ معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم خطہ ہے۔ اس علاقے کے معدنی تیل کی پیداوار کا قدیم سطح ہے اس کے علاقے میں معدنی تیل کے کنوئیں بلکسر ،کھوڑ ،ڈھلیاں ،جویا میر، منوا...